Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’باڑ اکھاڑنے کے واقعات افغانستان میں چین آف کمانڈ نہ ہونے سے پیش آئے‘

معید یوسف کے مطابق باڑ ہٹانے کا واقعہ مقامی سطح پر پیش آیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے پاکستان کی سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے حالیہ واقعات پر کہا کہ یہ افغان حکومت میں واضح ’چین آف کمانڈ‘ نہ ہونے کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ 
جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ یہ مسائل مقامی سطح پر پیش آئے ہیں، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان باڑ لگانے کے فیصلے پر اعلیٰ سطح پر اتفاق رائے موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد کے حوالے سے واقعات کا تعلق مقامی سطح کے مسائل سے جڑا ہے، افغانستان میں عمل درآمد کے مسائل ہیں۔
’افغان حکومت کی پالیسیوں پر مقامی سطح پر عمل در آمد کے لیے چین آف کمانڈ موجود نہ ہونے کی وجہ سے گڑ بڑ ہو رہی ہے۔ جو لوگ باڑ ہٹانے میں ملوث ہیں وہ کابل کی مرکزی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔‘ 
کمیٹی کے چیئرمین احسان اللہ ٹوانہ نے سوال کیا کہ کیا افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے؟ 
اس پر معید یوسف نے کہا کہ بلاشبہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا نیٹ ورک موجود ہے اور گزشتہ دس بارہ سالوں میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں نے اپنا نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے۔
’افغان طالبان کی تجویز پر تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت ہوئی ہے۔ ایک ماہ کے لیے سیز فائر ہوا۔ تحریک طالبان نے ایک ماہ کے بعد یکطرفہ طور پر سیزفائر ختم کر دیا۔‘
معید یوسف کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر افغان طالبان میں کوئی ابہام نہیں ہے، ٹی ٹی پی دہائیوں سے افغان سرزمین استعمال کرتی آئی ہے اور ان کا دہائیوں کا اثر راتوں رات ختم نہیں ہو گا۔ 

پاک افغان سرحد پر لگی باڑ مقامی طالبان نے اکھاڑ دی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

انھوں نے کہا کہ ’سابق افغان حکومت میں تو یہ کام زوروں پر تھا لیکن اب اس میں کمی واقع ہو چکی ہے۔‘
معید یوسف نے قومی سلامتی کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطے کی پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے جس پر سال 2014 میں سرتاج عزیر کی  قیادت میں  کام کا آغاز ہوا تھا۔
’اس پالیسی کو حتمی شکل دینے میں سات سال لگے۔ 2019 میں اس پالیسی پر ڈرافٹنگ کمیٹی دوبارہ بنائی گئی۔ 6 دسمبر کو پارلیمنٹ کی مشترکہ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں پالیسی پیش کی۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں معید یوسف نے کہا کہ پارلیمانی رہنماؤں نے اس پالیسی میں اپنی تجاویز دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم انھوں نے واضح کیا تھا کہ انھیں پالیسی سے اختلاف نہیں لیکن دیگر وجوہات کی وجہ سے رائے دینے سے انکار کیا تھا۔
معید یوسف نے کہا کہ جب تک اس پالیسی کو پارلیمنٹ نہیں اپنائے گی تو اس وقت تک یہ فعال نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے ’قانونی کور‘ حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونے تک یہ ایک دستاویز ہی رہے گی۔ 
معید یوسف نے واضح کیا کہ اس پالیسی کا بنیادی نقطہ عام آدمی کا تحفظ ہے جس میں معاشی سکیورٹی اور معاشی خودمختاری کو اہمیت دی گئی ہے۔
’معاشی خود مختاری بہت اہم ہے۔ قرض لینے کے اثرات خارجہ پالیسی پر بھی پڑتے ہیں۔ پاکستان کے لیے بیرونی قرضے ختم کرنا ضروری ہے تاہم جیو اکنامکس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہم جیو اسٹریٹیجک سے ہٹ جائیں گے۔‘ 

معید یوسف کے مطابق باڑ لگانے سے متعلق اعلیٰ سطح پر اتفاق رائے ہے۔ فوٹو اے ایف پی

معید یوسف نے مزید کہا کہ منظم جرائم، ہائبرڈ وار کے موضوعات کو سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ فوڈ سکیورٹی ملک کے لیے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
’قومی سلامتی پالیسی میں جنگی ہتھیاروں سے ہٹ کر عام آدمی کا سوچا گیا ہے۔ معیشت پاکستان کا نمبر ون مسئلہ ہے جو قومی سلامتی سے جڑا ہے۔ جب کسی عالمی ادارے سے قرضہ لیتے ہیں تو قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔‘

شیئر: