Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانپوں کے ڈنک کا 3 ہزار بار نشانہ بننے والے واوا سریش کون ہیں؟

واوا سریش نے اب تک 30 ہزار سانپوں کو پکڑا ہے (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
انڈین ریاست کیرالہ کے مشہور سانپ پکڑنے والے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے ماہر واوا سریش کو حال ہی میں کوبرا نے اس وقت کاٹ لیا جب وہ ضلع کوٹائم کے ایک گھر سے اسے ریسکیو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انڈیا ٹو ڈے کے مطابق واوا سریش نے اپنے زخم پر پٹی باندھی، کوبرا کو ریسکیو کیا اور جا کر ہسپتال میں داخل ہوگئے۔
اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی اور واوا سریش، جن کا ابھی بھی علاج چل رہا ہے، ایک بار پھر سرخیوں کی زینت بن گئے۔
لیکن یہ واوا سریش، جنہیں ’مگرمچھوں کے شکاری‘ سٹیو اروِن سے ملایا جاتا ہے، ہیں کون؟ اور یہ اتنے مشہور کیوں ہیں؟
درج ذیل سطور میں کہانی ہے ’سنیک ماسٹر‘ واوا سریش کی، جو نہ صرف انہیں بچاتے اور پکڑتے ہیں بلکہ انہوں نے موت کا سبب بننے والے ان سانپوں کو پالتو جانور کی طرح پالا بھی ہوا ہے۔

واوا سریش کی سانپوں سے دلچسپی کا آغاز بچپن میں ہی ہوگیا تھا (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

واوا سریش نے غربت میں آنکھ کھولی تھی اور ترواننت پورم کے سریکاریم قصبے میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔
ان کی سانپوں سے دلچسپی کا آغاز بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ 12 سالہ دبلے پتلے واوا سریش 1980 کی دہائی میں سکول جا رہے تھے جب ان کا سانپ سے پہلی بار آمنا سامنا ہوا۔
انہوں نے کوبرا کو پکڑ لیا اور گھر لے آئے۔ واوا سریش نے سانپ کو بوتل میں گھسایا اور 15 دن تک اپنا مہمان رکھا۔
یہ آغاز تھا واوا سریش کی اس رینگنے والے مہلک جانور سے طویل ’دوستی‘ کا۔
انہوں نے سکول چھوڑا اور تب سے اب تک 30 ہزار سانپوں کو پکڑا ہے جبکہ یہ تین ہزار بار انہیں کاٹ چکے ہیں۔
واوا سریش 30 سال سے زائد عرصے سے سماجی خدمت کے طور پر سانپوں کو پکڑ رہے ہیں اور کیرالہ کے محکمہ جنگلات کی مدد کرتے ہیں۔

واوا سریش 30 سال سے زائد عرصے سے سماجی خدمت کے طور پر سانپوں کو پکڑ رہے ہیں (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

کیرالہ میں جہاں بھی کوئی زہریلا سانپ دکھائی دیتا ہے تو اسے ریسکیو کرنے کے لیے واوا سریش کو بلایا جاتا ہے۔
وہ کیرالہ کے تقریباً تمام دور دراز کے قصبوں تک بھی سفر چکے ہیں اور اپنے اس شوق کی وجہ سے سنیک ماسٹر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
واوا سریش نے تقریباً 200 کنگ کوبراز کو پکڑا ہے جو انتہائی خطرناک ہیں اور جن کے زہر کی دوا بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔

شیئر: