Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشید عطرے، نغموں کو امر کرنے والا موسیقار

سنہ 60 کی دہائی میں میڈم نور جہاں اور رشید عطرے جس فلم میں ساتھ ہوتے فلمی حلقوں میں اس کی کامیابی مسلم سمجھی جاتی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
اردو شاعری کی روایت ہے کہ شعرا کی مقبولیت اور عظمت کا فیصلہ گانے والے کرتے رہے ہیں۔ غالب، داغ، ذوق اور دوسرے اساتذہ کا کلام گانے والوں کے باعث قبولیت عام سے سرفراز ہوا۔
فیض احمد فیض کی ایک نظم میڈم نور جہاں نے اس دلنشین انداز میں گائی ہے کہ وہ انہی سے منسوب ہو کر رہ گئی۔ خود فیض صاحب نے بھی کہہ دیا کہ ہم نے یہ غزل نور جہاں کو دے دی۔ محفلوں میں ملکہ ترنم سے جب بھی گانے کی فرمائش ہوتی تو ان کی اپنی اور سامعین کی پہلی ترجیح ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ ہوتی۔
اس نظم کو سن کر سر دھننے والے لاتعداد ہیں مگر شاید بہت کم لوگوں کو اس کے موسیقار اور فلم کا نام معلوم ہو۔
فیض کے کلام اور نور جہاں کی آواز کے تال میل سے جنم لینے والی فلم ’قیدی‘ کے اس نغمے کو موسیقی کا روپ رشید عطرے نے دیا تھا۔
برصغیر میں مدھر سروں اور سحر انگیز سازوں سے لاتعداد فلموں کو دوام بخشنے والے رشید عطرے کلاسیکی موسیقی کا معتبر نام تھے۔
ان کی انفرادیت علاقائی راگوں اور سازوں کو کلاسیکی موسیقی سے ہم آہنگ کر کے فلمی کہانی کے لیے نئے طرز کی دھنوں کی تخلیق تھی۔
رشید عطرے واحد موسیقار تھے جن کی تین فلموں ’شہید‘، ’سات لاکھ‘ اور ’نیند‘ کو تین نگار ایوارڈز ملے۔
وہ 15 فروری 1919 سے 18 دسمبر 1967 تک محض 48 سال زندہ رہے۔ اس دور کی سُپر ہٹ نغماتی فلموں سمیت 60 سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔
امرتسر کے ہارمونیم ماسٹر خوشی محمد کے ہاں ان کا جنم ہوا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد باٹا کمپنی میں ملازمت کرنا چاہتے تھے، مگر موسیقار باپ کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا کلاسیکی موسیقی میں نام پیدا کرے۔

فیض احمد فیض کی ایک نظم میڈم نور جہاں نے اس دلنشین انداز میں گائی ہے کہ وہ انہی سے منسوب ہو کر رہ گئی۔ (فائل فوٹو: میل ٹوڈے)

والد کلکتہ کے نیو تھیٹر کے موسیقی کے شعبے سے وابستہ تھے۔ بیٹے کو انہوں نے خان صاحب اشفاق علی خان کی شاگردگی میں دے دیا۔ راگ اور راگنیوں کی سمجھ بوجھ ہوئی تو والد کے انتقال پر ان کی جگہ نیو تھیٹر سے وابستہ ہو گے۔
شاعر اور فلم ساز نخشب چارجوی سے تعلق استوار ہو گیا تو ان کے لکھے گیت ’میرا روٹھا بالم‘ کی موسیقی کی ترتیب نے فلم سازوں کو ان کی طرف متوجہ کر دیا۔
قیام پاکستان سے قبل ان کی پہلی فلم نجم نقوی کی ’پناہ‘ تھی۔ جس میں گیتا نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ نوجوان رشید عطرے نے ٹھمری میں تخلیقی مہارت سے اس کی موسیقی ترتیب دی۔
کلاسیکی سازوں میں مہارت کی وجہ سے انہیں دو اور فلموں میں فن کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ فلمی اداکارہ مینا شوری کے خاوند شوری کی فلم ’پارو‘ میں کلاسیکی سازوں سے دلفریب دھنیں تخلیق کی۔ اسی دور میں اردو کی مشہور لکھاری عصمت چغتائی کے شوہر ہدایتکار شاہد لطیف کی فلم ’شکایت‘ کی موسیقی سے نوآموز رشید عطرے کی فنی پختگی کا چرچا فلمی حلقوں میں ہونے لگا۔
قیامِ پاکستان کے بعد بمبئی اور کلکتہ سے فلمی صنعت سے وابستہ دیگر موسیقاروں، گلوکاروں اور اداکاروں کے ساتھ ساتھ رشید عطرے نے بھی لاہور کا رخ کیا۔ فلمساز نذیر کی فلم ’شہری بابو‘ ان کی تخلیقی طبع کا تعارف ثابت ہوئی۔
معروف فلمی مصنف امجد پرویز کی تصنیف ’میلوڈی میکرز‘ کے مطابق رشید عطرے نے کلاسیکی موسیقی کے تمام راگوں پر طبع آزمائی کی۔ گلوکارہ نسیم بیگم کی آواز میں فلم ’سلمیٰ‘ کا گانا ’سانوریا من بھائیو‘ ٹھمری میں ان کی مہارت اور تعارف کا حوالہ بنا۔ منیر حسین کی آواز میں فلم ’سات لاکھ‘ کا سنتوش پر فلمایا گیت ’قرار لوٹنے والے‘ راگ بھاگیشری میں ترتیب پایا۔
شمالی پنجاب میں جنم لینے والا راگ پہاڑی، جدائی، ہجر اور محرومی کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زبیدہ خانم کی آواز میں رشید عطرے کا سدا بہار فلمی گیت ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ اسی راگ میں ترتیب دیا گیا۔
معروف فلمی شاعر سیف الدین سیف کا یہ نغمہ فلم ’سات لاکھ‘ کی کامیابی اور ہمیشگی کی وجہ بھی بنا۔

فلم ’سات لاکھ‘ کا سنتوش پر فلمایا گیت ’قرار لوٹنے والے‘ راگ بھاگیشری میں ترتیب پایا۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

رشید عطرے نے معروف شاعر فیض احمد فیض کی تین مشہور نظموں کو ساز و راگ میں اس فنی مہارت سے ڈھالا کہ ان کے تاثر اور مفہوم کا حق ادا کر دیا۔
’مجھ سے پہلی سی محبت‘ کے علاوہ مہدی حسن کی آواز میں ’گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے‘ اور منیر حسین کی آواز میں ’نثار میں تیری گلیوں پہ‏ اے وطن‘ کے انقلابی اور رومانوی آہنگ کو رشید عطرے کے ذہن رسا نے موسیقی کے قالب میں ڈھالا۔
صرف فیض پہ ہی موقوف نہیں دیگر بہت سارے نامور شعرا کا کلام ان کے ہاتھوں فلم کے پردہ سیمیں پر مقبول ہوا۔
منیر نیازی کی مشہور غزل ’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘ اور صوفی غلام مصطفی تبسم کا کلام ’سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی‘،
انہی کی بدولت فلمی نغموں کی صورت سامعین کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔
سنہ 60 کی دہائی میں میڈم نور جہاں اور رشید عطرے جس فلم میں ساتھ ہوتے فلمی حلقوں میں اس کی کامیابی مسلم سمجھی جاتی۔
فلم ’انارکلی‘ میں ملکہ ترنم کے سدا بہار نغمے ’کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں‘ کی مقبولیت میں ان کی فنی مہارت اور موسیقی کا عمل دخل تھا۔
’نگاہیں بدل کر جانے والے‘ اور ’لٹ الجھی سلجھائے رے جا بالم‘ جیسے مدھر گیت جہاں میڈم نور جہاں کی شہرت دوام کا باعث ہیں وہی یہ رشید عطرے کے لافانی فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
’گائے گی دنیا گیت میرے‘ اور ’چھن چھن باجے پائل‘ جیسے سدا بہار گیت آج بھی سننے والوں کو محویت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
فلم ’نیند‘ کو بلا شبہ رشید عطرے اور نور جہاں کے فنی سفر کی معراج کہا جا سکتا ہے۔
پاکستانی فلموں کی ایک اور خوبصورت آواز زبیدہ خانم نے گائیکی کا آغاز رشید عطرے کی موسیقی میں بننے والی فلموں سے کیا۔
50 کی دہائی کا دلکش گیت ’تیری الفت میں صنم ہم نے بہت درد سہے‘ ان کی دل سوز آواز اور رشید عطرے کی موسیقی کی بدولت آج تک قائم و دائم ہے۔
پنجابی فلم ’چن ماہی‘ پاکستانی فلمی تاریخ میں رجحان ساز نغماتی فلم سمجھی جاتی ہے۔ انور کمال پاشا نے اس فلم میں اس دور کے مقبول اور معروف فلمی چہروں صبیحہ اور سنتوش کی بجائے نوآموز بہار اور اسلم پرویز کو متعارف کروایا۔

زبیدہ خانم نے گائیکی کا آغاز رشید عطرے کی موسیقی میں بننے والی فلموں سے کیا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اس روایت شکنی سے فلمساز حلقے گومگو کا شکار تھے۔ مگر گلوکارہ نسیم بیگم کی سریلی آواز اور رشید عطرے کی دلفریب موسیقی نے بڑے ناموں سے فلموں کی کامیابی کے تصور کو غلط ثابت کر دیا۔
نسیم بیگم نے رشید عطرے کی موسیقی میں تیار ہونے والی سب سے زیادہ فلمی نغموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔
امجد پرویز کے مطابق ’سو بار چمن مہکا‘ نامی نغمے کی ادائیگی میں نسیم بیگم اور نور جہاں کے انداز میں بہت مماثلت تھی۔ ایک بار میڈم نور جہاں نے رشید عطرے سے مذاق مذاق میں شکوہ کیا کے آپ نے میری غزل نسیم بیگم کو کیوں دے دی۔
سنہ 60 کی دہائی میں خلیل قیصر اور ریاض شاہد پاکستانی فلم سازی کے افق پر سیاسی سماجی اور نظریاتی فلمی موضوعات کے ساتھ ابھرے۔
مشتاق گزدار کی پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ پر مبنی کتاب ’پاکستان سینما 1997-1947‘ کے مطابق برطانوی نو آبادیاتی استعمار کے خلاف عربوں کی جدوجہد کے تناظر میں بنائی گئی فلم ’شہید‘ ایک رجحان ساز فلم تھی۔
فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری، ریاض شاہد کے جاندار مکالموں، علاوالدین، مسرت نذیر اور آغا طالش کی بے مثال اداکاری کے ساتھ ساتھ رشید عطرے کی پرسوز موسیقی کا کرشمہ تھا کہ یہ فلم بینوں کی دھڑکنوں کا حصہ بن گئی۔
اس فلم نے نو نگار ایوارڈز جیت کر شائقین اور فلم انڈسٹری کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔
ستمبر 1966 میں خلیل قمر کے ناگہانی قتل کے بعد ریاض شاہد نے سامراج کے خلاف آزادی کی تحریکوں کو فلموں کے ذریعے اجاگر کرنے کی روایت کو آگے بڑھایا۔
فلسطین کی تحریک حریت کو اجاگر کرنے کے لیے ’زرقا‘ کے نام سے فلم پروڈیوس کی۔ یہ فلم ان کی اہلیہ نیلو کی فنی زندگی کا اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔
رشید عطرے کی موضوعاتی شاعری کو سُر اور ساز سے اجاگر کرنے کی فنی چابک دستی نے اس فلم میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ حبیب جالب کی مزاحمتی نظم ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ کے نقوش اس فلم کی بدولت آج تک مدھم نہیں پڑے۔

’زرقا‘ نیلو کی فنی زندگی کا اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

سنہ 1958 میں پاکستانی فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ ’نگار ایوارڈ‘ کا اجرا ہوا۔ صحافی الیاس رشیدی نے ’نگار‘ کے نام سے ہفت روزہ فلمی میگزین کا آغاز کیا۔ جس نے مقامی سینما اور فلم انڈسٹری کی بڑھوتری اور مسابقت کے لیے نگار ایوارڈ کا آغاز کیا۔
’سات لاکھ‘ پہلی فلم تھی جسے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ رشید عطرے کی مسحور کن کمپوزیشن اور نیلو کے ہوش ربا رقص نے ’آئے موسم سہانے رنگیلے‘ جیسے سدا بہار نغمے کو جنم دیا۔ اس فلم میں حسن طارق نے ڈائریکٹر جعفر ملک کے معاون کے طور پر کام کیا۔
اگلے برس انہی حسن طارق نے کوئلے کے کان کنوں کی زندگی پر ’نیند‘ کے نام سے فلم بنا کر اپنی فنی مہارت کا سکہ بٹھا دیا۔ اس فلم میں نور جہاں نے ہیروئن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
رشید عطرے کی باکمال میوزک کمپوزیشن نے ’تیرے در پہ صنم چلے آئے‘ اور ’آ گئی رات نہ آئے سنوریا‘ جیسے شاہکار گیت تخلیق کیے۔
معروف ادیب حکیم شجاع پاشا کے فرزند انور کمال پاشا پاکستان کے ابتدائی فلم سازوں میں سے تھے۔ جنہوں نے پاکستانی سینیما کی صورت گری اور روایت سازی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان کے ساتھ موسیقی کے رجحانات راسخ کرنے میں سب سے بڑا کردار رشید عطرے کا تھا۔
ساتھ ہی فلمی نغمہ نگاری میں قتیل شفائی کے رومانوی قلم نے آنے والوں کے لیے نقوش راہ ثبت کیے۔
ان تینوں کی تخلیقی تال میل نے ہماری فلموں کو بہت سارے لازوال فلمی گیت عطا کیے۔ اقبال بانو کی مدھر آواز میں ’تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے‘ اور ’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘ تین نسلوں بعد بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
جب میڈم نور جہاں نے تخلیق کاروں کی اس مثلث کے ساتھ مل کر اپنے فن کے جوہر دکھائے تو ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘ اور ’ہم تیری گلی میں آ نکلے‘ جیسے سدا بہار نغموں سے فلم انڈسٹری کا دامن بھر دیا۔
رشید عطرے بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی محفل سے اکتساب فیض نے ان کے اندر فنون لطیفہ کی تمام جہتوں اور جامعیت کے تمام پہلوؤں پر گہری دسترس پیدا کر دی تھی۔

اقبال بانو کی مدھر آواز میں گائے گیت تین نسلوں بعد بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

معروف فلمی مصنف علی سفیان آفاقی اپنی کتاب فلمی ’الف لیلیٰ‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’ایک بار میں نے ان سے ایک فقرے میں میوزک کی تعریف پوچھی۔ ان کا جواب تھاOrginazed Noise is Music ۔‘
علی سفیان آفاقی کے الفاظ میں میوزک کی ایسی جامع اور مختصر ترین تعریف کئی لوگوں کی طولانی گفتگو اور طویل تشریح سے بڑھ کر تھی۔
رشید عطرے کی اپنے ہم عصر موسیقاروں سے معاصرانہ چشمک جاری رہتی تھی مگر ذاتی احترام میں جہاں کہیں کمی آتی محسوس ہوتی وہ اس کا ازالہ کرنے میں دیر نہ کرتے۔
ایک بار کسی محفل میں وہ اور خواجہ خورشید انور اکٹھے تھے۔ عالم خمار میں رشید عطرے نے خواجہ صاحب کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں پر سخت ناقدانہ سوالات اٹھا دیے۔ اپنے آپ کو ان سے بڑا موسیقار کہہ کر انہیں زچ کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب اس مخصوص کیفیت سے باہر نکلے تو فورا غلطی کا احساس ہو گیا اور خواجہ صاحب سے معذرت اور ندامت کا اظہار کیا۔
علی سفیان آفاقی نے ان کی میوزک میں محویت کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ اس دور میں روایت تھی کہ فلمی شائقین فلم کی ناکامی کا اظہار سینما کا فرنیچر توڑ کر کیا کرتے تھے۔ انہی دنوں مسعود پرویز کی ہدایت کاری، رشید عطرے کی موسیقی اور سعادت حسن منٹو کی کہانی پر ’مبنی فلم بیلی‘ کا سینما گھر میں شو چل رہا تھا۔
رشید عطرے اور مسعود پرویز بھی سنیما ہال جا پہنچے۔ فلم بینوں نے توقعات پر پورا نہ اترنے والی فلم کے ساتھ اسی روایت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا، مگر رشید عطرے اس تمام ہنگامے سے بے نیاز مسعود پرویز سے فلمی گیتوں کی موسیقی کے معیار کی داد  طلب کر رہے تھے۔ جب انہوں نے ہنگامہ آرائی سے پریشان مسعود پرویز سے کہا کہ ذرا یہ ستار پیس ملاحظہ کریں ۔اسی دوران کسی ستمگر کا پھینکا گیا کرسی کا ٹوٹا پایا مسعود پرویز پہ آ گرا۔ انہوں نے اٹھا کر رشید عطرے کو دکھاتے ہوئے کہا ’ذرا یہ پیس بھی ملاحظہ کریں۔‘
رشید عطرے کا فن ان کے بیٹے سے ہوتا ہوا پوتے تک منتقل ہو چکا ہے۔ ان کے فرزند وجاہت عطرے نے اپنے باپ کے نقش قدم پر فلمی موسیقاری کا فن اپنایا اور لاتعداد فلمی گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔

رشید عطرے کے فرزند وجاہت عطرے نے بھی لاتعداد فلمی گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

دلچسپ امر ہے کہ اپنے والد کی طرح انہوں نے میڈم نور جہاں کی اکثر فلموں میں بیک گراؤنڈ میوزک دیا۔ اس سے بڑھ کر ان کے بیٹے جمی عطرے نے اپنے دادا کی موسیقی اور نور جہاں کی آواز میں گائے گئے گیت ’اکیلی کہیں مت جانا‘ کا ری مکس بنا کر اپنی خاندانی روایت کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔
ایک بار میڈم نور جہاں نے اپنی فنی خدمات کو یاد رکھے جانے کے حوالے سے استفسار کا جواب اپنے مشہور گیت ’گائے گی دنیا گیت میرے‘ کے اس مصرعے سے دیا تھا۔ اسی طرح جب تک نور جہاں کے لافانی گیتوں کا تذکرہ ہوتا رہے گا، موسیقار رشید عطرے کو بھی ساتھ ہی یاد کیا جاتا رہے گا، یا فیض احمد فیض کی آفاقی شاعری کو موسیقی میں ڈھالنے کا تذکرہ ہوگا تو رشید عطرے کے فن کی بازگشت بھی سنائی دے گی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں