Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لتا منگیشکر سُروں کی ملکہ کیسے بنیں؟

ہندوستان کے نامور موسیقار نوشاد نے اپنی فلم ’چاندنی رات‘ کے گیت گانے کے لیے ایک نوآموز گلوکارہ کو اپنے سٹوڈیو بلوایا۔ اتفاق سے اس وقت بمبئی میں شدید بارش ہو رہی تھی۔ مگر وہ لڑکی بارش کی پرواہ کیے بغیر سٹوڈیو پہنچی تو اس کی چپل بارش کے پانی میں بھیگنے کی وجہ سے ٹوٹ چکی تھی۔
اس نے پاؤں ساڑھی میں چھپا لیے تاکہ اس کی غربت کسی پر ظاہر نہ ہو۔ اتفاق سے نوشاد کی نظر اس کی ٹوٹی چپل پر پڑ گئی۔ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ انہیں اپنا ماضی یاد آیا جب وہ خستہ  لباس میں بمبئی کی سڑکوں پر خاک چھانتے پھرتے تھے۔
انہوں نے اس لڑکی کے کپڑے بدلوائے اور گرم چائے پلائی۔ ٹوٹی چپل کے ساتھ اس کے ریکارڈ کروائے گیتوں کی تازگی، نغمگی اور کھنک نے موسیقی کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ چہار سو اس کے رسیلے گیتوں اور نشیلی آواز کا شہرا ہوگیا۔
یہ کہانی آج کے دن کورونا سے 93 برس کی عمر میں وفات پا جانے والی لتا منگیشکر کی ہے۔ جسے ڈاکٹر الف انصاری نے اپنی کتاب ’ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقاء‘ بیان کیا ہے۔
لتا منگیشکر کے دنیا سے اٹھ جانے سے برصغیر کی موسیقی کا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔ سینکڑوں فلمیں صرف ان کی مدھر آواز کی بدولت مقبولیت کی انتہا  تک پہنچی۔
سات عشروں تک پھیلے ہوئے بے مثال کیریئر میں انہوں نے ایک ہزار سے زیادہ فلموں میں گیت گائے۔ لتا کی آواز میں ایسا جادوئی کرشمہ تھا کہ وہ سرحدوں کی دوریوں کو مٹا دیتی تھی۔ ان کا فن صرف اردو گیتوں تک محدود نہ تھا بلکہ 36 علاقائی اور غیر ملکی زبانوں میں ان کے گیت موجود ہیں۔ جن میں انگریزی اور روسی زبان میں بھی شامل ہیں۔
کلاسیکی گائیک پنڈت دیناناتھ منگیشکر کا تعلق گوا کے قریب واقع ایک چھوٹے سے قصبے منگیش سے تھا۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ منگیشکر کا اضافہ کیا۔

والد  سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی تھی۔ مگر حالات نے فلمی موسیقی کی طرف دھکیل دیا۔ (فوٹو: لتا منگیشکر فیس بک)

28 ستمبر 1929 کو ان کے ہاں بیٹی کا جنم ہوا۔ نام لتا رکھا گیا۔ بیٹی کو شروع سے ہی کلاسیکی گائیکی کی تربیت دینے لگے۔ امان علی خان بھنڈی بازار والے اور امانت خان جیسے اساتذہ سے کلاسیکی گائیکی کے رموزواسرار سے مزید آشنائی پیدا ہوئی۔
لتا محض 13 برس کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑی بیٹی ہونے کے باعث خاندان کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔
مادری زبان مراٹھی تھی۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک مراٹھی فلم ’سہیلی اور منگا گور‘ میں چائلڈ آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔
مگر لتا کو  کیمرا، لائٹس اور میک اپ کی دنیا نہ بھائی۔
والد  سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی تھی۔ مگر حالات نے فلمی موسیقی کی طرف دھکیل دیا۔ ایک مراٹھی فلم ’آپ کی سیوا‘ میں گیت گائے۔ مزید گانوں کی تلاش میں وہ کولاپور چلی گئی۔
1946 میں ماسٹر وینایک کی فلمی کمپنی میں نوکری کر لی اور انہی کے ساتھ ممبئی منتقل ہو گئیں۔ ان کے انتقال نے لتا کو ایک مرتبہ پھر تنہا چھوڑ دیا۔ اسی دوران ماسٹر غلام حیدر سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔
ہندوستان کے عظیم موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے لتا کی صلاحیتوں اور سُر اور ساز پر عبور کو بھانپتے ہوئے اپنی فلم ’محبوب‘ میں گانے کا موقع دیا۔ انہوں نے گلوکار مکیش کے ساتھ دو گانا گایا۔

محمد رفیع کے ساتھ ان کا دو گانا ہندوستانی فلم کی معراج سمجھا جاتا تھا۔ (فوٹو: لتا منگیشکر فیس بک)

یکے بعد دیگرے بہت ساری فلموں میں گانے کے باوجود نہ تو انہیں مقبولیت ملی اور نہ ہی معاشی حالت سدھری۔
قسمت نے ان کے عروج کے لیے معروف موسیقار نوشاد کا ساتھ لکھا ہوا تھا۔ نوشاد کی تخلیقی صلاحیت اس دور میں فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔
لتا نے ان کی فلموں ’انداز‘ ’دلاری‘ اور ’برسات‘ کے گیت گائے۔ مگر فلم ’محل‘ کے گانے ’آئے گا آنے والا ‘ نے ہندوستانی فلمی صنعت میں ان کے نام کا سکہ جما دیا۔
لتا اور نوشاد کی جوڑی اس قدر مقبول ہوئی کے ان دو باکمال فنکاروں کے تمام گیت ریکارڈ ساز ثابت ہوئے۔ یہی سے لتا کی فنی زندگی کا سنہرا دور شروع ہوتا ہے۔
انہوں نے ہندوستانی فلموں کے تمام نمایاں میوزک ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا۔ مدن موہن جی کو وہ اپنا بھائی قرار دیتی تھی۔ اس ڈی برمن اور ان کے بیٹے آر ڈی برمن کے ساتھ ان کی معرکۃ الآرا فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔
انو ملک اور اے آر رحمان کے میوزک کی وہ ہمیشہ معترف رہی۔
1960 سے 1980 تک کا دور ان کی فنی زندگی کے عروج کا دور تھا۔ محمد رفیع کے ساتھ ان کا دو گانا ہندوستانی فلم کی معراج سمجھا جاتا تھا۔

لتا منگیشکر کو فرانس کے اعلیٰ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لتا کے گائے فلمی گیت غزلیں اور بھجن سبھی نے قبولیت عام کا درجہ پایا۔ ’مغل اعظم‘ ’مدرانڈیا‘ اور’پاکیزہ‘ کو نکال دیا جائے تو ہندوستانی فلمی تاریخ میں کچھ نہیں بچتا۔ اور اگر ان کے گیتوں سے لتا کی آواز کو نکال دیا جائے تو فلموں میں کچھ نہیں بچتا۔
ملکہ  ترنم نورجہاں کا لتا کے ساتھ تقسیم سے قبل کا ساتھ تھا۔
ان کی پہلی ملاقات کولاپور میں بننے والی فلم بڑی ماں کے سیٹ پر ہوئی۔ نورجہاں اس میں ہیروئن کا کردار ادا کر رہی تھی۔ ماسٹر عنایت حسین نے لتا منگیشکر کا ان سے تعارف کروایا۔ نورجہاں  نے ان  کا گانا سنا تو بہت خوش ہوئیں۔ انہیں کہا کہ اللہ میاں نے تمھیں اتنا اچھا گلا دیا ہے تم ریاض کرنا اور پھر مجھ سے ملنا۔
ان دونوں عظیم گلوکاروں کی اگلی ملاقات تقسیم کے بعد واہگہ بارڈر پر ہوئی۔ جرمن ریڈیو ڈی ڈبلیو کی اردو سروس کے پروگرام ’ملے جو کہکشاں میں‘ میں ایک انٹرویو میں لتا منگیشکر نورجہاں کے ساتھ اپنی ملاقات کو یاد کیا ہے۔ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ انہیں ملنے گئی۔ نور جہاں ان کے لیے گھر سے بریانی بنا کر لائی تھیں۔
لتا منگیشکر کہتی تھیں کہ انہوں نے گانا گانا نورجہاں کے ریکارڈ سن سن کر سیکھا۔ اسی حوالے سے موسیقار نوشاد نے اپنے ایک انٹرویو میں اس وقت کو یاد کیا ہے جب لتا منگیشکر ٹرائل دینے ان کے پاس آئی تھی۔
نوشاد کے مطابق لتا منگیشکر کہنے لگیں میرا گانا سنیے اور مجھے ہندی فلم میں چانس دیجیے۔ نوشاد نے جب گانا گانے کا کہا تو لتا نے نور جہاں کا گانا ’میرے لیے جہاں میں چین ہے نہ قرار ہے‘ سنایا۔
نورجہاں کو لتا منگیشکر کا فلم رضیہ سلطانہ کے لیے گایا گیا گیت ’اے دل نادان‘ بہت پسند تھا۔ لتا کے مطابق وہ ان سے ہمیشہ کہتی تھی کہ یہ گانا جیسا تم نے گایا ہے میں چاہوں بھی تو ویسا نہیں گا سکتی۔

پورا برصغیر ان کی گائیکی پر فدا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لتا نے جس دور میں فلمی موسیقی میں قدم رکھا وہ ہندوستان کی صف اول کی  گلوکاروں کا دور تھا۔ جدن بائی، نرملا دیوی، زہرہ بائی انبالہ والی اور شمشاد بیگم کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ مگر انہوں نے اپنی طرز اور راہ الگ اپنائی۔
انہیں بھارت کے تمام بڑے قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ جن میں بھارت رتن، پدم بھوشن، پدم شری، اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ شامل ہیں۔
فلمی صنعت کے دیگر افراد کی گلیمر بھری زندگی کے برعکس لتا نے تمام عمر سادگی میں بسر کی۔ ان کے معاشقوں کی خبریں وقتا فوقتا آتی رہی مگر انہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی۔
ہندوستان میں انہیں راجیہ سبھا کا رکن بھی بنایا گیا۔ مگر ان کی ذات پر فن ہی حاوی رہا۔ سیاست کی پر پیج وادیوں کے بجائے انہوں نے سُروں اور سازوں کے پیچ رہنا پسند کیا۔
سابق انڈین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے لتا کے بارے میں کہا تھا ’وہ ہندوستان کا قابل قدر ہیرا ہیں۔‘ ان کے فن اور سازوں کی ہیرے کی مانند جگمگاہٹ شاید ہی کبھی ماند پڑے۔

شیئر: