Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاض میں ای لرننگ گلوبل ٹرینڈز فورم کا افتتاح

سعودی وزارت تعلیم اور الیکٹرانک یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کیا ہے( فوٹو عرب نیوز)
سعودی وزارت تعلیم اور سعودی الیکٹرانک یونیورسٹی کی جانب سے ریاض میں لرننگ اور ٹیکنالوجی کے مستقبل پر ایک فورم کا افتتاح کیا گیا۔
عرب نیوز کے مطابق گلوبل ٹرینڈزان ای لرننگ ایونٹ 21 سے 23 فروری تک آن لائن ہورہا ہے جس میں 40 سے زیادہ مقررین، 50 کمپنیاں اور 20 ممالک حصہ لے رہے ہیں۔
یہ ایونٹ تعلیمی شعبے کے متنوع مقررین کو اکٹھا کرتا ہے۔
سعودی وزیر تعلیم حمد آل شیخ نے کہا کہ ’ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے ایک ای تعلیم کا نظام بنانے کی ضرورت ہے جو مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے علم اور ہنر کو ایسی شکل فراہم کرے جو ترقی اور اختراع کو تحریک دے اور سائنسی بنیادوں کے مطابق پائیداری کو یقینی بنائے۔‘

کلاس رومز میں سمارٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے( فوٹو عرب نیوز)

دارالحکومت کے ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں سعودی وزیر تعلیم حماد الشیخ اوریونیورسٹی کی صدر ڈاکٹر لیلک الصفدی نے مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعلیمی طریقوں اور ڈیجیٹل لرننگ کو آگے بڑھانے کی اہمیت پر زوردیا۔
ڈاکٹر لیلک الصفدی نے کہا کہ ’ہم ایک تکنیکی دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں جس نے تعلیم سمیت تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گلوبل ٹرینڈز ان ای لرننگ شرکا کو تجربات،علم کا تبادلہ کرنے، اور ای لرننگ کے نمایاں ترین طریقوں اور تعلیم میں جدید ترین ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے واقف ہونے کی اجازت دے گا۔‘
ڈاکٹرلیلک الصفدی نے کہا کہ 2025 تک 85 ملین ملازمتوں کو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے بدل دیا جائے گا اور 33 فیصد ملازمتیں دور دراز کے کاموں میں منتقل ہو جائیں گی۔

عالمی تعلیمی ٹیکنالوجی مارکیٹ کا حجم 400 بلین ڈالر سے زیادہ ہے(فوٹو عرب نیوز)

انہوں نے مزید کہا کہ ’عالمی تعلیمی ٹیکنالوجی مارکیٹ کا حجم 400 بلین ڈالر سے زیادہ ہے، بشمول ورچوئل رئیلٹی ٹیکنالوجیز جس کا تخمینہ 12 بلین ڈالر ہے اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کا تخمینہ چھ بلین ڈالر ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ غیرروایتی لرننگ ماڈل تعلیم کا مستقبل ہیں جیسے کہ کلاس رومز میں سمارٹ ٹیکنالوجی کا استعمال۔
سعودی وزیر تعلیم نے کہا کہ مملکت کے وژن 2030 میں کئی سٹریٹجک اہداف کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جن میں تعلیم کے اہداف بھی شامل ہیں تاکہ مساوی تعلیم کی رسائی کو بہتر بنایا جا سکے اور عالمی مسابقت حاصل کی جا سکے۔‘

شیئر: