Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جی ایس ٹی کا نفاذ، پاکستان میں سولر سسٹم کی فروخت میں نمایاں کمی

برسراقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت نے متبادل توانائی کو فروغ دینے کا اعلان کیا تھا۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
حکومت کی جانب سے رواں برس کے آغاز میں منی بجٹ میں سولر پینل پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کے اعلان کے بعد پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا متبادل توانائی کا یہ شعبہ شدید مشکلات کا شکار ہوگیا ہے اور ڈیلرز کے مطابق سولر سسٹم کی فروخت میں گذشتہ دو ماہ کے دوران 40 سے 60 فیصد تک کی کمی سامنے آئی ہے۔
پاکستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران توانائی کے بحران اور مہنگی بجلی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے صارفین میں سولر پینلز لگانے کا رجحان تیزی سے بڑھا تھا اور گذشتہ مالی سال کے دوران 2380 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل سولر پینلز درآمد کیے گئے تھے۔
تاہم رواں سال جنوری میں منی بجٹ کے ذریعے سولر سسٹم کی درآمد پر بھی 17 فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی تھی، اس کے علاوہ تین فیصد اضافی جی ایس ٹی بھی لگایا گیا جس سے عام گھریلو سولر سسٹم کی لاگت میں دو سے چار لاکھ روپے تک کا اضافہ ہوگیا۔
راولپنڈی میں سولر سسٹم کا کاروبار کرنے والے رینیو ایبل انرجی ایسوسی ایشن کے مرکزی عہدیدار نثار اے لطیف کے مطابق ان کے کاروبار میں گذشتہ دو ماہ میں 60 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے اور کام رک سا گیا ہے۔

نثار اے لطیف کے مطابق اب گھروں کے لیے 10 کلو واٹ کا سولر سسٹم تقریباً 15 سے 16 لاکھ میں پڑتا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا تھا کہ پہلے گھروں کے لیے 10 کلو واٹ کا جو سولر سسٹم تقریباً 12 لاکھ میں پڑتا تھا، اب وہ تقریباً 15 سے 16 لاکھ میں پڑتا ہے کیونکہ جی ایس ٹی کے ساتھ ساتھ دیگر استعمال ہونے والے آلات اور تاروں وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
’پہلے اگر ہر مہینے ہمارے پاس 10 سے 12 کلائنٹس آ جاتے تھے تو اب بمشکل ایک دو لوگ آتے ہیں اور وہ بھی زیادہ تر بینک سے قرض لے کر سولر سسٹم لگاتے ہیں۔‘
نثار اے لطیف کا کہنا تھا کہ حکومت نے جہاں تیل اور بجلی کی قیمت کم کی ہے اسے شسمی توانائی کے شعبے کو بھی ریلیف دینا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگر گذشتہ سال کی رفتار سے یہ شعبہ آگے بڑھتا رہا تو آنے والے پانچ سالوں میں یہ شعبہ 19 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی حکومت سمجھ رہی ہے کہ سولر پینل پر ٹیکس لگانے سے اسے سالانہ 24 ارب کی سالانہ آمدن ہوگی مگر اسے یہ احساس نہیں کہ آئندہ 25 سالوں میں ملک کو سستی شمسی توانائی سے 57 کھرب روپے کا جو مجموعی فائدہ ہو سکتا ہے، یہ ٹیکس اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔‘
پاکستان سولر ایسوسی ایشن (پی ایس اے) کے چیئرمین رانا عباس کے مطابق اس ٹیکس سے کاروبار شدید متاثر ہوا ہے اور ملک بھر میں سولر سسٹم کی فروخت میں 30 سے 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں شمسی توانائی سے 15 سو کمپنیاں وابستہ ہیں جن کے ساتھ سوا لاکھ لوگوں کا براہ راست روزگار جڑا ہے۔

پاکستان میں متعدد پرائیویٹ بینک اب سولر سسٹم کے لیے چھ سے سات فیصد تک شرح منافع پر قرض دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: سولر سسٹم پاکستان فیس بک)

رانا عباس کا کہنا تھا کہ ’اس ٹیکس سے ان غریبوں کا نقصان ہو گیا ہے جو سولر سسٹم سے ٹیوب ویل لگواتے تھے یا پھر جو گاوں میں سولر سسٹم لگواتے تھے کیونکہ صرف 10 سے 15 فیصد لوگ سولر سسٹم کو نیٹ میٹرنگ سے منسلک کرکے واپڈا کو بجلی دیتے ہیں باقی لوگ واپڈا کے متبادل کے طور پر سولر سسٹم لگواتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومتی اقدامات سے  پاکستان کا 2030 تک متبادل توانائی کا شیئر 30 فیصد تک پہنچانے کا ہدف ناممکن ہوجائے گا۔‘
یاد رہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت نے متبادل توانائی کو فروغ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2025 تک متبادل توانائی کے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار کو 20 اور 2030 تک 30 فیصد کر دیا جائے گا۔
تاہم رانا عباس کا کہنا تھا کہ جس طرح بجلی مہنگی ہوئی ہے اس سے امید ہے کہ مستقبل میں لوگ پھر بھی سولر سسٹم کی طرف ہی جائیں گے، چاہے انہیں اس کے لیے بینک سے قرض لینا پڑے۔
واضح رہے کہ میزان بینک، جے ایس بینک سمیت متعدد پرائیویٹ بینک اب سولر سسٹم کے لیے چھ سے سات فیصد تک شرح منافع پر قرض دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں سولر سسٹم نصب کرنے والی ایک کمپنی کے مالک ریحان احمد کے مطابق نئے حکومتی اقدام سے کاروباری افراد کی رپورٹنگ کی ضروریات بڑھ گئی ہیں اور اس میں پیچیدگی آ گئی ہے۔
ان کے مطابق ’جن لوگوں نے سولر پینلز کے کنٹینرز منگوائے ہوئے تھے ان کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ انہوں نے گاہکوں کے ساتھ پرانے ریٹ پرمعاہدے کیے ہوئے تھے مگر ایک دم ٹیکس لگنے سے ان کی سپلائی متاثر ہو گئی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے گریس پیریڈ دینا چاہیے تھا۔‘

رانا عباس کا کہنا تھا کہ جس طرح بجلی مہنگی ہوئی ہے اس سے امید ہے کہ مستقبل میں لوگ پھر بھی سولر سسٹم کی طرف ہی جائیں گے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ریحان احمد کا کہنا تھا کہ فروری سے اس کاروبار کا پیک سیزن شروع ہوتا ہے مگر اس سال ابھی تک کاروبار میں تیزی نہیں دیکھی جا رہی۔
یاد رہے کہ پاکستان میں سولر سسٹم پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے مگر امریکہ ،آسٹریلیا ،یورپی یونین اور پڑوسی ملک انڈیا سولر سسٹم لگانے پر شہریوں کو 30 سے 50 فیصد سبسڈی بھی دے رہے ہیں تاکہ بجلی پیدا کرنے کے سستے ترین ذریعے سے استفادہ کیا جا سکے۔

شیئر: