Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگی بجلی، لوڈشیڈنگ: گھروں پر سولر سسٹم لگوانے کے رجحان میں اضافہ

مسلسل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگوں نے شمسی توانائی کا استعمال شروع کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گرمیوں کا موسم آتے ہی بجلی کے بلوں میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ دو ایسے مسائل ہیں جن سے تقریباً ہر شخص ہی تنگ نظر آتا ہے اور اب سے کچھ عرصہ قبل تک اس مسئلے کا کوئی حل سمجھ نہیں آتا تھا تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ان دونوں مسائل کا ایک دیرپا حل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔
راولپنڈی کی ایک پرائیویٹ سوسائٹی کے رہائشی سہیل اسلم گل بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح ان دو مسائل سے پریشان رہتے تھے۔
انہوں نے گذشتہ سال اس مسئلے کا ایک مستقل حل تلاش کیا جس کے لیے انہیں صرف ایک لاکھ روپے اور گھر کی خالی چھت کی ضرورت تھی۔ باقی سب کچھ 15 دن میں مکمل ہو گیا۔
اب وہ نہ صرف اپنے گھر میں گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر سمیت تمام برقی آلات استعمال کرتے ہیں بلکہ جو ’بل‘ ادا کرتے ہیں اس سے وہ ہر ماہ گھر کی چھت پر لگے شمسی توانائی سے چلنے والے پاور سسٹم کے مالک بننے کے قریب پہنچتے جا رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ایک 10 مرلہ گھر کے مالک ہیں اور گذشتہ سال دسمبر میں انہوں نے سولر انرجی پر شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تاہم ان کے پاس دیگر لوگوں کی طرح یک مشت سولر پاور سسٹم لگوانے کے لیے درکار کم سے کم پانچ سے چھ لاکھ روپے کی رقم موجود نہیں تھی۔
تاہم اس کا بھی حل نکل آیا اور انہیں پتا چلا کہ بینک کے ذریعے وہ سولر سسٹم قرض پر بھی حاصل کر سکتے ہیں جس کی شرح منافع صرف چھ فیصد سالانہ پر فکس ہے۔
گویا انہیں ہر ماہ بل کی جگہ بینک کو قسط دینا پڑ رہی تھی اور پانچ سال بعد قسط ختم ہونے پر سولر سسٹم ان کا اپنا بن جانا تھا۔
انہوں نے بینک کی مہیا کردہ لسٹ میں شامل ایک کمپنی سے رابطہ کیا جنہوں نے 15 دن میں ان کا کیس پراسس کرکے ان کے گھر میں پانچ کلو واٹ کا سولر سسٹم لگا دیا جس پر کل خرچ ساڑھے پانچ لاکھ روپے آیا جس میں سے انہیں تقریبا ڈیڑھ لاکھ فوری ادا کرنا تھا اور باقی پانچ سال کی اقساط میں صرف چھ فیصد سالانہ فکس شرح سود پر۔

 سولر پینلز نصب کرنے کے لیے گھر پر چھت کی ضرورت ہوتی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

اسلم گل کے مطابق وہ سسٹم سے بہت مطمئن ہیں کیونکہ ان کو ہر ماہ اب تقریبا ساڑھے نو ہزار بینک قسط ادا کرنا ہوتی ہے جبکہ دو ماہ بعد ان کا بجلی کا بل زیرو ہو گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے واپڈا کے ساتھ معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت ان کی چھت سے شمسی توانائی کے ذریعے پیدا کردہ بجلی واپڈا کو چلی جاتی ہے جبکہ ان کو اس کے بدلے میں گھر کے لیے مفت بجلی فراہم کر دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ کلو واٹ کا سسٹم سردیوں میں تقریبا 20 یونٹ روزانہ جبکہ گرمیوں میں 30 سے 35 یونٹ روزانہ بناتا ہے جبکہ ان کا خرچ اس سے کم ہی ہوتا ہے۔
سہیل گل کی طرح ان کی سوسائٹی میں سینکڑوں افراد نے سولر سسٹم  لگوا لیے ہیں اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں اب جگہ جگہ چھتوں پر سولر پینل دکھائی دے رہے ہیں۔

سولر پینل کی بینک فائنانسنگ

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نجی بینک کے ایک اہلکار نے بتایا کہ گھر پر سولر پینل لگوانے کے لیے ان کا بینک ایک لاکھ سے 20 لاکھ تک کا قرض فراہم کرتا ہے جس کی مدت تین سے پانچ سال تک ہو سکتی ہے۔
’بینک اس پر چھ فیصد سالانہ کا فکس منافع وصول کرتا ہے جبکہ 25 فیصد رقم ڈاؤن پیمنٹ یا یکشمت ادائیگی کی شکل میں دینا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ بینک کے 14 ہزار روپے پراسسنگ کے چارجز بھی ہیں۔ تاہم ڈاؤن پیمنٹ شرح سود سے مستثنی ہوتی ہے گویا بینک صرف اس رقم پر منافع وصول کرتا ہے جو صارف کی ادائیگی کے بعد بچ جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بینک کی شرائط میں یہ ہے کہ گھر اسی شخص کا ہونا چاہیے جو سولر سسٹم لگواتا ہے اس کے علاوہ زیادہ کڑی شرائط نہیں ہیں۔

پاکستان میں بینک سولر سسٹم لگانے کے لیے قرضے مہیا کرتے ہیں۔ (فوٹو: سولر سسٹم پاکستان فیس بک)

سولر پینل کی کمپنی کیسے منتخب کریں

بینکوں کی ویب سائٹس پر ان کمپنیوں کی فہرست مہیا کر دی جاتی ہے جنہیں سولر سسٹم لگانے کے لیے بینک کی منظوری حاصل ہوتی ہے۔ صارفین ایک سے زائد کمپنیوں سے اپنی ضرورت کے مطابق اخراجات کا تخمینہ لگوا سکتے ہیں اور بہترین ریٹ پر اچھا سسٹم لگوا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک سولر سسٹم کمپنی کے مالک عاشر پراچہ کا کہنا تھا کہ آج کل سولر سسٹم مہیا کرنے والی کمپنیوں کی تعداد شاید صارفین سے بھی بڑھ چکی ہے اس لیے لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ کس کا انتخاب کریں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ سستی چیز ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی بعض غیر رجسٹرڈ کمپنیاں آپ کو اصل لاگت سے 25 فیصد کم کا لاگت پر سسٹم لگا کر دے دیتی ہیں مگر ایک تو وہ حکومتی ٹیکس کی بچت کرتے ہیں اور دوسرا ان کا مال سمگلنگ کا ہوتا ہے اور کئی بار تیز دھوپ یا آندھی طوفان میں ان کے سولر پینل کو نقصان ہو جاتا ہے۔
عاشر پراچہ کے مطابق ان کی کمپنی پانچ کلو واٹ کا ہائبرڈ سسٹم تقریباً سوا چھ لاکھ روپے میں لگا کر دیتی ہے۔

سولر سسٹم کے آپشنز

عاشر پراچہ کے مطابق ہائبرڈ سسٹم وہ ہوتا ہے جس میں بیٹریوں کے ذریعے گھر میں سولر سسٹم سے بجلی استعمال کی جاتی ہے جبکہ اضافی بجلی واپڈا کو بیچ دی جاتی ہے۔
’اس سسٹم میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوڈشیڈنگ نہیں سہنا پڑتی بلکہ بیٹریوں کے ذریعے دن کو حاصل کی گئی بجلی شام کو اور بجلی کی عدم دستیابی کے وقت بھی استعمال کر لی جاتی ہے تاہم اس کا نقصان یہ ہے کہ اس کے لیے کچھ عرصہ بعد بیٹریاں دوبارہ خریدنی پڑتی ہیں۔‘
عاشر کے مطابق آج کل زیادہ لوگ دوسری طرح کا سولر سسٹم لگوا رہے ہیں جیسے گرڈ ٹائی سسٹم کے ذریعے سولر پینل کی بجلی براہ راست واپڈا کو بیچی جاتی ہے اور اس میں بیٹریوں کی سالانہ مرمت کا خرچ ادا نہیں کرنا پڑتا۔

سولر سسٹم کمپنی کے مالک عاشر پراچہ کے مطابق سولر سسٹم مہیا کرنے والی کمپنیوں کی تعداد شاید صارفین سے بھی بڑھ چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سٹیٹ بینک کا کردار

اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے ری فائنانسنگ سکیم کے ذریعے بینکوں کو اجازت دی گئی ہے کہ چھ فیصد کی فکس شرح منافع پر سولر پاور جنریشن کے منصوبوں کو قرض فراہم کریں۔
جون 2016 میں بینک کی جانب سے قابل تجدید توانائی سکیم متعارف کروائی گئی جس کے تحت بینکوں کو ملک میں توانائی کی قلت ختم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کی جانب سے ری فائنانسنگ کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں کو اس طرح کے قرض فراہم کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے حالیہ چند سالوں میں سولر سسٹم فائنانسنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تاہم اردو نیوز کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بینکوں کی مدد سے کتنے نئے سولر سسٹم لگے اس حوالے سے اعدادوشمار ابھی پبلک نہیں کیے گئے تاہم منظوری کے بعد انہیں عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

شیئر: