Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان بورڈ کے حکام پرچے اور امتحانی مراکز فروخت کرتے ہیں: تحقیقاتی رپورٹ

رپورٹ میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور مالی بد عنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے (فوٹو ٹوئٹر)
کوئٹہ کے جنرل موسیٰ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں ایک طالبعلم امتحانی پرچہ اپنے ساتھ گھر لے گیا اور پھر اگلے روز اسے مطالعہ پاکستان کے امتحان میں اپنے ساتھ واپس لے آیا۔
امتحان کی نگرانی پر مامور عملے اور نقل کی روک تھام کے لیے بنائی گئی امتحانی بورڈ کی کمیٹی نے طالبعلم کا پرچہ منسوخ کردیا مگر بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین نے نہ صرف طالبعلم کو کلین چٹ دے دی، بلکہ طالبعلم 50 میں سے 32 نمبر لے کر پاس بھی ہوگیا۔
اس بات کا انکشاف بلوچستان حکومت کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ہوا ہے جس میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران امتحان کے دوران نقل کرکے پکڑے جانے والے نہ صرف ایسے کئی طالب علموں کو غیر قانونی طور پر پاس کیا گیا جن کے پرچے پہلے نگران عملے اور کمیٹی نے منسوخ قرار دیے تھے، بلکہ بھاری رقوم لے کر پرچے اورامتحانی مراکز تک فروخت کئے گئے۔
30 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات لینے والے بورڈ غیر قانونی پیسہ کمانے کا ادارہ بن گیا ہے۔
یہ تحقیقات بلوچستان کے محکمہ کالجز، ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے سیکریٹری نے عوامی شکایات اور متاثرہ افراد کی درخواستوں پر چند ماہ قبل شروع کی گئی تھیں۔
تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ چیف سیکریٹری بلوچستان کو بھیج دی گئی۔ سیکریٹری کالجز، ہائیر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن بشیر احمد بنگلزئی کی سربراہی میں کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری ڈویلپمنٹ ہائر ایجوکیشن، ایڈیشنل سیکریٹری جوڈیشل محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی، ڈائریکٹر ٹریننگ محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سی ٹی ڈی کے ڈپٹی ڈائریکٹر فورینزک شامل تھے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب رپورٹ میں بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میں امتحانات کے انعقاد اور نتائج کی تیاری میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور مالی بد عنوانیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سابق چیئرمین کے دفتر کا دورہ اور بورڈ کے ریکارڈ تک محدود رسائی کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ بورڈ پیسہ کمانے کے غیر قانونی ادارے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ امیدواروں کو ان کی پسند کے امتحانی مراکز میں بٹھایا گیا۔ بھاری رقم کے عوض سیکریسی برانچ کے ذریعے جوابی پرچے فروخت کیے گئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ آئی ٹی سیکشن سمیت بورڈ کے مختلف شعبوں کو نتائج تبدیل کرنے اور پسندیدہ امیدواروں کی سہولت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جبکہ جوابی پرچوں کی دوبارہ چیکنگ کو سابق چیئرمین کے دفتر نے کاروبار میں تبدیل کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوال ناموں کی تیاری اور تقسیم، نگران عملے کی تعیناتی، امتحانی مراکز کی تبدیلی کے طریقہ کار، کوڈنگ ڈی کوڈنگ، پرچوں کی چیکنگ، نتائج کی تیاری اور دوبارہ گنتی کے عمل میں نگرانی اورشفافیت کا فقدان، قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اورہیرا پھیری کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔

دوسرے امیدوار کے مجموعی نمبر 874 سے بڑھ کر 1027 کیے گئے (فوٹو ٹوئٹر)

رپورٹ میں پرچوں کی چیکنگ، امیدواروں کی درخواست پر دوبارہ چیکنگ اور دوبارہ گنتی میں بے قاعدگیوں کا ذکرکرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2021ء میں ایف ایس سی کے امتحان کے ایک پرچے کی دوبارہ چیکنگ کے نتیجے میں طالبعلم کے مجموعی نمبروں کو 621 سے بڑھا کر 819 کر دیا گیا اور اس کے صرف کمیسٹری کے پرچے میں نمبر 28 سے بڑھا کر 76 کیے گئے۔
دوبارہ چیکنگ کے نتیجے میں ایک دوسرے امیدوار کے مجموعی نمبر 874 سے بڑھ کر 1027 کیے گئے۔
رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ’کوئٹہ شہر کے سب سے معرو ف اور مہنگے سکولوں اورکالجوں میں پڑھنے والے ریگولر طلباء صرف 15 ہزار روپے ادا کر کے شہر سے دور دراز علاقوں میں یا اسی شہر کے اندر امتحانی مراکز تبدیل کرنے کے لیے درخواستیں کیوں دیتے ہیں۔ اس پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سکول بھاری رقم کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے امتحانی مراکز کا انتظام کرتے ہیں تاکہ سکول کی شہرت کے لیے زیادہ نمبر حاصل کیے جاسکیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ  امتحانی مراکز فروخت ہوچکے ہوتے ہیں۔‘
زیادہ تر کیسز میں امیدواروں نے امتحانی مراکز کوئٹہ سے تبدیل کروا کر ڈیرہ مراد جمالی، بھاگ، جھل مگسی، اوستہ محمد، میختر، برشور سمیت ایسے نواحی یا دور دراز علاقوں کا انتخاب کیا جہاں بورڈ کی اچانک دورے کرنے والی ٹیموں یا سینٹر انسپکٹرز کی رسائی آسان نہیں یا پھر ان امیدواروں کو امتحانی مرکز پر تعینات نگران عملے کے بارے میں پہلے سے علم تھا تاکہ وہ امتحانات میں غیر منصفانہ برتری حاصل کریں۔
دوسرے لفظوں میں سینٹرز کو بورڈ حکام نے فروخت کردیا جہاں غیر منصفانہ ذرائع کا استعمال اور دھوکہ دہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک ہی مراکز میں دو بار اور اس سے بھی زیادہ مرتبہ ایک ہی نگران عملہ تعینات کیا گیا، تاہم بورڈ حکام نے انکوائری کے دوران مؤقف اختیار کیا کہ سرکاری اساتذہ کی تنظیموں کے دباؤ میں آکر نگران عملے کو ان کے پسند کے مراکز پر تعینات کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بعض مراکز ایسی شہرت رکھتے ہیں کہ وہاں امیدواروں سے بھاری رقوم اور تحائف وصول کرکے بدلے میں انہیں نقل اور غیر قانونی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بدعنوانی، بدانتظامی، اختیارات کا غلط استعمال وسیع پیمانے پر ہورہا ہے (فوٹو ٹوئٹر)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوال نامے کسی نگرانی کے بجائے گھر پر بیٹھ کر تیار کیے گئے اور پھر بورڈ کو فراہم کیے گئے۔ جبکہ کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کی پوری ذمہ داری صرف ایک شخص کے سپرد کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو متعلقہ ضروری دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، لیکن محدود دستیاب دستاویزات اورریکارڈ پر سرسری نظر کی بنیاد پر کمیٹی نے جو کچھ پایا وہ محض 'ٹِپ آف آئس برگ' ہے۔
بدعنوانی، بدانتظامی، اختیارات کا غلط استعمال وسیع پیمانے پر ہورہا ہے اس لیے وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کی سربراہی میں مزید تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 
رپورٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ بلوچستان بورڈ کے سابق چیئرمین، سابق کنٹرولر اور آئی ٹی سیکشن کے سربراہ نے جان بوجھ کر بورڈ کے نظام کو خطرے میں ڈالا اس لیے ان کے خلاف فوجداری اور محکمانہ طور پر انضباطی کارروائی کی جائے۔
امتحانی مراکز کی تبدیلی پر پابندی عائد کرنے، نگراں عملے کی تعیناتی قرعہ اندازی کے ذریعے کرنے، سوال نامے بورڈ دفتر کے اندر کڑی نگرانی میں تیار کرکے اسے پیپر بینک میں محفوظ رکھنے، بورڈ کا پورا نظام ای آر پی کمپیوٹرائزڈ پروگرام پر منتقل کرنے، اساتذہ کے بجائے انتظامی افسران کو بورڈ کے چیئرمین اور کنٹرولرکی حیثیت سے تعینات کرنے اور چیئرمین کے اختیار محدود کرکے پیشہ ورانہ امور تکنیکی کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
کمیٹی نے امتحانی مراکز کی تبدیلی پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے صرف جان کے خطرے کی صورت میں ایف آئی آر یا متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے تحریری مراسلے کی بنیاد پر امتحانی مرکز تبدیل کرنے کی اجازت دینے کی سفارش کی ہے اور قرار دیا ہے کہ کوئٹہ میں اچھے سکولوں اور اساتذہ سے پڑھنے والے طلبہ امتحانی مراکز تبدیل کروا کر اندرون بلوچستان کے علاقوں میں امتحانات دے کر ان پسماندہ علاقوں کے طلبہ سے نا انصافی کرتے ہیں۔ اس لیے اس کی روک تھام کے لیے بورڈ کے قوانین میں تبدیلی کی جائے۔ 

شیئر: