Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقوام متحدہ کے تین چوتھائی رکن ممالک فلسطینی ریاست کے حامی ہیں

نومبر 2012 میں اقوام متحد کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو ’غیر مبصر رکن ریاست‘ کا درجہ دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے تین چوتھائی رکن ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں یا جلد تسلیم کرنے والے ہیں۔ آسٹریلیا نے بھی ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر تسلیم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ جو سات اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم کے حملے بعد غزہ میں شروع ہوئی، نے دنیا بھر میں فلسطینیوں کو ان کی علیحدہ ریاست دینے کے مطالبے کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔
یہ اقدام اس دیرینہ موقف سے انحراف ہے کہ فلسطینی صرف اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی امن عمل کے نتیجے میں ریاست حاصل کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 145 ممالک اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں یا جلد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں فرانس، کینیڈا اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔
فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد کا مختصر جائزہ
15 نومبر 1988 کو پہلی فلسطینی انتقاضہ کے دوران فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے یکطرفہ طور پر یروشلم کو دارالحکومت قرار دے کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
انہوں نے یہ اعلان الجزائر میں جلاوطن فلسطینی نیشنل کونسل کے اجلاس میں کیا جس میں دو ریاستی حل کو پیش کیا گیا، یعنی اسرائیل اور فلسطین کی آزاد ریاستیں ایک ساتھ موجود ہوں۔
چند منٹوں کے اندر الجزائر پہلا ملک بنا جس نے رسمی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔
اور پھر ہفتے کے اندر اندر درجنوں دیگر ممالک جن میں عرب دنیا، انڈیا، ترکیہ، بیشتر افریقی اور کچھ وسطی و مشرقی یورپی ممالک نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا۔
تسلیم کرنے کی دوسری لہر 2010 کے آخر اور 2011 کے آغاز میں اس وقت آئی جب مشرق وسطیٰ کے امن عمل میں بحران پیدا ہوا۔
اس وقت جنوبی امریکی ممالک جیسے ارجنٹینا، برازیل اور چلی نے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔ یہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر عارضی پابندی ختم کرنے کے ردعمل میں تھا۔

حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

2011 میں امن مذکرات کی بندش کے بعد فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی مہم شروع کی۔
یہ کوشش ناکام رہی لیکن 30 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے فلسطینیوں کو مکمل رکن تسلیم کیا جس پر اسرائیل اور امریکہ نے مایوسی کا اظہار کیا۔
نومبر 2012 میں اقوام متحد کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو ’غیر مبصر رکن ریاست‘ کا درجہ دیا جس کے بعد پہلی مرتبہ اقوام متحدہ میں فلسطینی پرچم لہرایا گیا۔
رواں برس عالمی فوجداری عدالت نے فلسطینیوں کو ریاستی فریق کے طور پر تسلیم کر لیا۔
سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ پر جارحیت نے فلسطینی ریاست کی حمایت کو مزید تقویت دی۔
2024  میں جمیکا، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، بارباڈوس اور بہاماس اور آرمینیا نے فلسطینی ریاست کو سفارتی طور پر تسلیم کیا۔
اسی سال یورپ کے چار ممالک ناروے، سپین، آئرلینڈ اور سلووینیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔
یورپی یونین کے اندر یہ 2014 کے بعد پہلی مرتبہ تھا کہ جب سویڈین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جس کے بعد اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔

اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دیگر یورپی ممالک جیسے پولینڈ، بلغاریہ اور رومانیہ نے فلسطینی ریاست کو 1988 میں ہی تسلیم کر لیا تھا جب وہ یورپی یونین کا حصہ نہیں تھے۔
دوسری طرف کچھ سابق مشرقی بلاک کے ممالک جیسے ہنگری اور چیک جمہوریہ یا تو فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے یا اب تسلیم نہیں کرتے۔
آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے پیر کو کہا ہے کہ ’آسٹریلیا فلسطینی عوام کے اپنی ریاست کو حق کو تسلیم کرے گا‘ اور یہ اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کیا جائے گا۔
فرانس نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا جبکہ برطانیہ نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے جنگ بندی سمیت ’ٹھوس اقدامات‘ نہ لیے تو وہ بھی ایسا کرے گا۔
کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ دیگر ممالک جنہوں نے اس حوالے امکانات ظاہر کیے ہیں، ان میں مالٹا، فن لینڈ اور پرتگال شامل ہیں۔

شیئر: