Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں استعمال شدہ گاڑی کیسے خریدیں؟

قانون کے مطابق گاڑی جس کے نام ہے وہی اسے چلا سکتا ہے (فوٹو الریاض)
سعودی عرب کے تقریباً ہر شہر میں پرانی گاڑیوں کی فروخت کے مراکز ہیں جنہیں ’حراج سیارات‘ کہا جاتا ہے جہاں پرانی اور ری کنڈیشنڈ گاڑیاں فروخت ہوتی ہیں۔
حراج میں پرانی گاڑیوں کی بولی بھی لگائی جاتی ہے، جبکہ وہاں موجود شورومز میں نئی کاریں بھی فروخت کےلیے موجود ہوتی ہیں۔ 
پاکستان و دیگر ممالک کی طرح سعودی عرب میں بھی پرانی کاروں کی خرید وفروخت کا بزنس کافی اچھا ہے، تاہم اب اس میں غیر معمولی طور پر کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چند برس قبل تک بیشتر مقامی اور غیر ملکی پرانی گاڑیوں کی خرید وفروخت کا کام کافی بڑے پیمانے پر کیا کرتے تھے۔ 
گاڑی خریدنے کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کا ہونا بنیادی شرط ہے جس کے نام گاڑی خریدی جاتی ہے اگر ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے تو اس کے نام پرگاڑی رجسٹر نہیں ہوگی۔ 
خریدی جانے والی گاڑی اپنے نام ٹرانسفر کرانا لازمی ہے اس سے قبل بعض لوگ جو پرانی گاڑی کا کاروبار کیا کرتے تھے اکثر اوپن لیٹر پر گاڑی رکھا کرتے تھے مگر اب اس پر سخت پابندی عائد کردی گئی ہے۔ 
گاڑی اپنے نام منتقل کرانے کےلیے کارآمد ڈرائیونگ لائسنس کے علاوہ گاڑی کی تھرڈ پارٹی انشورنس کرائی جاتی ہے۔ ٹریفک چالان ہونے کی صورت میں بھی گاڑی ٹرانسفر نہیں ہوسکتی۔ چالان ادا کرنے کے بعد ٹرانسفر کی کارروائی مکمل کی جاتی ہے اس لیے اس امر کا خیال رکھیں کہ گاڑی اپنے نام کرانے سے قبل چالان ادا کر دیے جائیں۔ 
گاڑی کے ملکیتی کارڈ جسے عربی میں ’استمارہ‘ کہا جاتا ہے بھی کارآمد ہونا شرط ہے۔ گاڑیوں کی جانچ کے ادارے کی جانب سے جاری کردہ سالانہ سرٹیفکیٹ جسے یہاں ’فحص‘ کہا جاتا ہے گاڑی فروخت کرنے سے قبل درکار ہوتا ہے۔ ’فحص‘ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی صورت میں گاڑی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔ 
گاڑیوں کی نیلامی کا اصول 
’حراج سیارت‘، جہاں گاڑیوں کو بولی لگا کرفروخت کیا جاتا ہے، کا اصول ہے کہ گاڑی ’جہاں اور جیسی‘ کی بنیاد پر فروخت کی جا رہی ہے۔ گاڑی خریدنے کے بعد اس کی خرابی کے بارے میں شکایت نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے پرانی گاڑی خریدنے سے قبل بہتر ہوتا ہے کہ گاڑی کے کسی ماہر کی خدمات حاصل کی جائیں جو انجن یا گاڑی کے چیسس کا اچھی طرح معائنہ کرسکے۔ 
پرانی گاڑی خریدنے سے قبل اس کی کمپیوٹرچیکنگ کی شرط لگائی جاسکتی ہے، تاہم یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب گاڑی ’بولی‘ سے نکل جائے۔ بصورت دیگر اگر بولی کے دوران گاڑی کا مالک اس شرط کو تسلیم کرلیتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ 

بولی میں فروخت ہونے والی بیشتر گاڑیوں میں بڑے نقص ہوتے ہیں (فوٹو امارت الیوم)

بولی سے خریدی جانے والی پرانی گاڑیاں 
عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ بولی میں فروخت ہونے والی بیشتر گاڑیوں میں بڑے نقص ہوتے ہیں اس لیے انہیں جیسی اور جہاں کی بنیاد پرفروخت کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اچھی گاڑیاں بھی مل جانے کا امکان ہوتا ہے، تاہم اس کی چیکنگ لازمی کرائی جائے تاکہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے۔
اکثر اوقات پرانی گاڑیاں جنہیں دوبارہ پینٹ کر کے فروخت کیا جاتا ہے بڑے حادثے کا شکار ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے خصوصی جانچ درکار ہوتی ہے کیونکہ پرانی گاڑی جو کسی بڑے حادثے کا شکار ہوئی ہوجس کے نتیجے میں اس کا چیسس تباہ ہو چکا ہو وہ کبھی بھی درست کارکردگی نہیں دے سکتیں اور ان کی مارکیٹ ویلیو بھی کم ہوجاتی ہے۔ 
زیادہ سیلنڈر والی گاڑیوں کی مارکیٹ 
سعودی عرب میں 2017 سے قبل امریکی گاڑیوں کی کافی طلب تھی جو کہ آرام دہ ہوتی ہیں خاص کر لمبے سفر کے دوران کافی بہتر رہتی ہیں مگر ان کا مسئلہ پیٹرول کا زیادہ خرچ ہے۔  
آٹھ سیلنڈرز والی گاڑیوں میں پیٹرول کا خرج چار یا چھ سیلنڈر والی گاڑیوں سے زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ماضی میں سعودی عرب میں پیٹرول سستا ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگ زیادہ تر بڑی گاڑیوں کو ترجیح دیتے تھے، مگر جب سے پیٹرول مہنگا ہوا ہے چھوٹی گاڑیوں کا رواج بڑا گیا اور امریکی گاڑیوں کی مارکیٹ ایک دم گر گئی۔ 
غیر ملکی کتنی گاڑیاں رکھ سکتا ہے؟ 

محکمہ ٹریفک کے قانون کے مطابق ایک غیر ملکی بیک وقت دو گاڑیاں اپنے نام سے خرید سکتا ہے (فوٹو امارت الیوم)

سعودی عرب میں محکمہ ٹریفک کے قانون کے مطابق ایک غیر ملکی بیک وقت دو گاڑیاں اپنے نام سے خرید سکتا ہے۔ ویگن یا سات سیٹوں والی گاڑی خریدنے کے لیے غیر ملکی کے اہل خانہ کی کم از کم تعداد پانچ ہونا چاہیے۔ اگر کسی کے اہل خانہ کی تعداد اس سے کم ہے تو اسے سات سیٹوں والی گاڑی اپنے نام سے رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ 
دوسرے کی گاڑی چلانا 
قانون کے مطابق گاڑی جس کے نام ہے وہی اسے چلا سکتا ہے۔ اگر کسی دوسرے کو گاڑی دی جاتی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ ٹریفک پولیس کے ادارے سے این او سی حاصل کیا جاتا ہے جسے عربی میں ’تفویض‘ کہتے ہیں۔ این او سی میں دوسرے کو گاڑی چلانے کے لیے دی گئی اجازت محدود مدت کے لیے ہوتی ہے۔ 

شیئر: