کون کہہ سکتا تھا کہ 20 برس قبل پیدائشی طورپر ڈاؤن سنڈروم اور دیگر امراض کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ ایک دن سعودی عرب کا نام روشن کرے گا۔
عبدالعزیز کی پیدائش کے وقت ڈاکٹروں نے اس کی والدہ سے کہا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 10 برس تک جی سکتا ہے کیونکہ ڈاؤن سنڈروم کے علاوہ اسے دل کا عارضہ بھی لاحق ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی لڑکی نے اپنے جگر کا ٹکڑا دے کر والد کی جان بچالیNode ID: 856826
-
سعودی نوجوان جو 17 برس سے عازمین حج کی خدمت کر رہے ہیںNode ID: 889895
سبق نیوز کے مطابق ریاض کے ایک ہسپتال میں سال 2004 میں جب عبدالعزیز کی ولادت ہوئی اور اس کی والدہ نے ڈاکٹروں کے یہ الفاظ سنے تو یہ عہد کر لیا کہ وہ اپنے بیٹے کو کچھ بنائیں گی۔
عبدالعزیز کی والدہ کا کہنا تھا ’اللہ رب العزت پر میرا پورا یقین تھا کہ اس نے کسی کو بھی بے کار تخلیق نہیں کیا، اسی سوچ کے تحت عبدالعزیز کی پرورش کی، ہمیشہ بیٹے سے کہا کرتی ’تم مختلف ہو مگر کسی سے کم نہیں، تم میرے لیے رب کا تحفہ ہو۔‘
بچپن سے والدہ کی زبانی یہ جملے سن کر پروان چڑھنے والے عبدالعزیز کا لاشعور اسے مضبوط بناتا رہا یہاں تک کے پانچ برس کی عمر میں اسے ’دمج ‘ پروگرام (وزارت تعلیم کا پروگرام جس میں مخصوص بچوں کوعام طلبا کے ساتھ رکھا جاتا ہے) میں داخل کیا گیا۔
عبدالعزیز ہر سال اپنی کلاس میں امتیازی نمبر حاصل کرتا جس سے اس کی شخصیت مزید مستحکم ہوتی گئی۔
عبدالعزیز نے انٹر کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، اس وقت کے وزیر تعلیم نے سند سے نوازا اور بعد میں جاب آفرز آنے لگیں۔
میکڈونلڈ سعودی عرب کی جانب سے نوکری کی آفر آئی، انٹرویو ہوا اور انہیں ملازمت مل گئی۔ جاب ملنے سے ان کی شخصیت میں مزید خود اعتمادی پیدا ہوئی۔
ملازمت سے ان کی زندگی میں عملی تبدیلی آنے لگی اور زندگی کا رخ متعین کرنے میں سہولت ہوئی بلکہ یہاں انہیں کام کا بہترین ماحول ہی نہیں میسر آیا بلکہ کمپنی کی جانب سے انہیں متعدد کورسز بھی کرائے گئے۔
والدہ نے مزید بتایا ’عبدالعزیز سپورٹس کا بہت شوقین تھا خاص کر وہ تھائی باکسنگ، ویٹ لفٹنگ اور تیراکی کے مقابلوں میں اندرون مملکت حصہ لے چکا تھا۔
عبدالعزیز اب عالمی سطح پر نمودار ہوا جب رواں برس ترکیہ میں ہونے والے عالمی تھائی باکسنگ کے مقابلے میں مملکت کی نمائندگی اور ’ورلڈ چیمپئن‘ کا ٹائٹل جیتا۔
سعودی میکڈونلڈز کے سی ای او اور مالک شہزادہ مشعل بن خالد آل سعود نے عبدالعزیز کی فتح پر تقریب منعقد کی اور کہا ’آج میں کمپنی کے ذمہ دار کی حیثیت سے نہیں بول رہا بلکہ میں خود کو عبدالعزیز کا باپ سمجھ رہا ہوں۔ ہمیں اس کی کامیابیوں پر فخر ہے اور یہ لمحات میرے لیے باعث مسرت ہیں۔‘
کمپنی کی جانب سے عبدالعزیز کو 50 ہزار ریال کا انعام بھی دیا گیا۔