Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کلبھوشن کی سزائے موت اور ہند

ہندوستانی جاسوس کافی عرصے پہلے گرفتار ہوا، اتنی دیر تک ہندوستانی کرتا دھرتا خاموش تماشائی کیوں بنے رہے

 صلاح الدین حیدر

ہم زبان، تاریخی اور ثقافتی پس منظر ایک، صرف 70 سال پہلے ایک قوم تھے، لیکن دونوں ہی لگتے ہیں جیسے ایک دوسرے کے ازلی دشمن، آخر کیوں؟ یہ گولہ باری، ایک دوسرے کی جان کے دشمن، کیوں؟ دونوں اچھے ہمسائے، اچھے دوست بن کر کیوں نہیں رہ سکتے؟ کس کی نیت میں فتور ہے۔ ہند ہم سے دس گنا بڑا ملک ہے۔ معیشت میں ہم سے بہت آگے، اُس کا کاروباری طبقہ، اربوں، ہزاروں کروڑوں بلکہ وسیع و عریض طور پر ہم سے بہت آگے ہے۔ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں، جمہوریت وہاں شروع سے ہی پروان چڑھی، پھلی پھولی اور ادارے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔

ہمارے یہاں آمریت نے ملک کو تباہی کے کنارے پہنچادیا۔ عوام کا شعور اور اُن کی تخلیقی صلاحیتیں جلا پانے کے بجائے، مائل بہ پستی ہی رہیں۔ آج ہم اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ مانا کہ قصور ہمارے آمروں کا ہے کہ اُنہوں نے ہند کا ہوّا کھڑا کرکے، اپنے ہی عوام سے جھوٹ بولالیکن 100 فیصد ایسا نہیں ہے۔ ضیاء الحق نے امرتسر کا دورہ کیا۔ مشرف نے واجپائی سے ہاتھ ملایا، ایک طرفہ دوستی کی مثال قائم کی، لیکن ہندوستانی حکمراں کچھ ایسا لگتا ہے، جیسے اپنے ہی مکروفریب کے جال میں پھنستے چلے گئے۔غرور اور انا پرستی کے سحر میں مبتلا ہوکر، وہ اپنی ذمہ داریاں بھول گئے۔

دوسروں کو نیچا دِکھانا اُن کا شیوہ بن گیا۔ پہلے صرف بال ٹھاکرے تھے، اب تو کئی ہزار جنونی پیدا ہوچکے ہیں، جہاں گاندھی کے اصولوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ پیروں تلے کچل دیا گیا۔ بدلے، جلن اور حسد کی آگ آج ہر طرف ہند کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے نظر آتی ہے۔ مودی نے انتخابات جیتنے کے بعد پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری تقریب میں آنے کی دعوت دی جو قبول کرلی گئی، پھر ہندوستانی وزیراعظم بہ نفسِ نفیس خود لاہور تشریف لائے اور نواز شریف کے گھر گئے۔اُن کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔ اچھی بات تھی، ظاہر ہے اُس کا خیرمقدم کیا گیا، پذیرائی ملی لیکن پھر جہاں سشما سوراج اور ماضی میں ایل کے ایڈوانی جیسے انتہا پسند قائدین ہوں، وہاں آگرہ Summit بھی ناکام ہوگی اور تعلقات بھی خراب ہوں گے۔

خوش قسمتی سے ہمارے پاکستان میں قدامت پسند لوگ اور لیڈران تو بہت ہیں لیکن انتہا پسندوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ظاہر ہے ان کی سوچ کا عام پاکستانیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ بھول جاتے ہیں، دُنیا ایک نقارخانہ ہے، ان جیسے لوگوں کی حیثیت طوطی سے زیادہ نہیں اور ان کی کون سنتا ہے۔ شرنارتھیوں سے جان چھڑانے کے بجائے، مودی نے اُنہی کے راستے پر چلنا شروع کردیا ہے تو کشیدگی تو بڑھے گی ہی۔ پاکستان نے اپنے تمام تر کمزور اور محدود وسائل کے باوجود بھرپور کوشش کرلی کہ ہند سے تعلقات معمول پر آجائیں، دونوں ممالک اچھے ہمسایوں کی طرح مل کر برصغیر کو جنت نما بنادیں، لیکن افسوس محبت کا جواب پتھر سے دیا گیا۔ آج بھی بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کے جاسوس (جو پاکستان کی تحویل میں ہے) کو چھڑانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اُن کا رویہ ہمیشہ سے ہی ایسا رہا ہے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز، دو برس پہلے دہلی جانے والے تھے کہ ہند سے مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں، لیکن یہ وہ سشما سوراج ہیں جنہوں نے ایک رات پہلے ہی سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اُن کے سخت لہجے کی وجہ سے مذاکرات ہو ہی نہ سکے۔ کلبھوشن یادو، بھارتی نیوی کا ملازم آفیسر ہے جس نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ وہ جعلی نام سے پاکستان میں براستہ ایران داخل ہوا اور بلوچستان و کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی پلاننگ میں مصروف تھا۔ اب تو وہ پاکستان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ بلوچستان اور ایران کی سرحد سے پکڑا جانے والا یہ شخص انڈین نیوی کا کمانڈر ہے، ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہے، تمام ثبوت پاکستان کے پاس ہیں اور اُسے سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جس کی آرمی چیف نے توثیق بھی کردی ہے۔

اب سرتاج عزیز کا یہ بیان کہ کب پھانسی کے پھندے پر چڑھایا جائے گا کہنا مشکل ہے، عجیب سا ہے۔ پھانسی کا آرڈر ہونے کے بعد چھ مہینے تک تو وہ پاکستان کے صدر مملکت کو اپیل کرسکتا ہے۔ سشما سوراج نے بھی اسی بات کا سہارا لیا ہے کہ وہ صدر ممنون حسین سے اپیل کریں گی۔ اب اُنہیں ہمارے صدر سے اتنی محبت کیسے ہوگئی۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہہ دیا ہے کہ اُسے پھانسی ضرور ہوگی، اُس کے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے کا ثبوت مل چکا ہے۔ لیکن ہندوستانی ترجمان کو دیکھئے کہ ابھی تک کہہ رہے ہیں کہ اُسے زبردستی پھنسایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کافی عرصہ پہلے گرفتار ہوا تھا تو اتنی دیر تک ہندوستانی حکومت یا اُس کے کرتا دھرتا خاموش تماشائی کیوں بنے رہے، اُن کی زبان کیوں گنگ ہوگئی تھی، سزائے موت سنائے جانے کے بعد اُنہیں یکدم خیال کیوں آگیا۔ ظاہر ہے بھارتی حکومت کو پارلیمنٹ میں جواب دینا پڑا، انڈین میڈیا چیخ چیخ کر اپنی سرکار سے جواب طلب کررہا ہے۔

مودی کو لالے پڑ گئے ہیں۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر، 12 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی ہے کہ پاکستان تمام ملکوں بشمول ہند، اچھے تعلقات چاہتا ہے، تاکہ خطے میں امن رہے اور خوش حالی کا دور دورہ ہو۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ذمے دار ملک کا کردار ادا کررہا ہے، لیکن بھارت کی دھمکی کہ ہم سے جو کچھ ہوسکا کلبھوشن کو چھڑانے کے لیے کریں گے، آخر کیا معنی رکھتی ہے۔ کیا ہند ہم پر جنگ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ کیا اُسے اپنی ایٹمی طاقت کا بہت زعم ہے تو کوشش کرکے دیکھ لے، سودا بہت مہنگا پڑے گا۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، مذاکرات سے تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہماری کوششیں اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

ہند کو ہمیں دھمکیاں دینے کے بجائے، کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداﷲ کے بیان کی طرف دھیان دینا چاہیے، جس میں اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور ضرورت پاکستان سے بات کرنے کی ہے۔ میر واعظ عمر فاروق نے بھی تنبیہ کی کہ جو عوامی تحریک حقوقِ انسانی کے لیے کئی مہینوں سے کشمیر میں چل رہی ہے وہ خالص وہاں کے لوگوں کی ہے اور جس طرح یہ تحریک چل رہی ہے، صحیح انجام کو پہنچے گی، یہ اب رُکنے والی نہیں۔ فاروق عبداﷲ نے صحیح کہا کہ کشمیر ہند کے ہاتھ سے نکلے جارہا ہے، پاکستان اپنی تمام تر اخلاقی حمایت ہر عالمی فورم اور بین الاقوامی سر پر بھرپور ساتھ دے گا۔ بھارت کو اب بات چیت شروع کردینی چاہیے، ہٹ دھرمی سے کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان ایک مضبوط اور جدید سامان حرب سے لیس ہے، اس کی فوج دُنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، دُنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے، ایٹمی طاقت سے لیس تو پھر ہند یہ سب کیوں بھول جاتا ہے، اُسے پاکستانی وزیراعظم کے بیان کا مثبت جواب دینا چاہیے اور مذاکرات سے تمام مسائل کا حل نکالنا ہی پڑے گا۔ حالیہ ہفتے دبئی میں Track-2 ڈپلومیسی کی بات چیت ہوئی لیکن کیا فائدہ جب ہندحکومت غرور سے اس قدر چُور ہے کہ وہ شاید سمجھتی ہے کہ پاکستان کو ہڑپ کرجائے گی، ہڑپ کرنا تو دُور کی بات، آپ کوشش ہی کرکے دیکھ لیں، کیا سبق ملتا ہے۔

شیئر: