Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منحنی و نستعلیق

اے کاش بدعنوانوں سے پاک مستقبل کا یہ خواب حقیقت بن کر منصۂ شہود پر آجائے۔۔۔۔۔

*شہزاداعظم*

ہم کرۂ ارض پربسنے والی ’’سب سے خوش قسمت‘‘ قوم ہیں کیونکہ سب قوموں کو محض آزادی میسر ہے جبکہ ہمیں آزادیاں حاصل ہیں۔ ہم یہاں ان آزادیوں کا ذکرنہیں کرناچاہتے کیونکہ اگر ایسا کیا تو دفتر کے دفتر ختم ہوجائیں گے مگر ’’ذکرِ حریت ‘‘ختم ہونے کا نام نہیں لے گا۔ہمیں میسر آزادیوں کی انتہائوں کا اندازہ اس امرسے لگالیجئے کہ ہم بلا روک ٹوک،کسی پابندی یا امتناع کے بغیر، اپنی مرضی سے مستقبل کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہمیں یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ یہ خواب ہم چاہیں تو کھلی آنکھوں دیکھیں اور چاہیں تو آنکھیں بند کر لیں۔

ہم نے اتنی تمہید اس لئے باندھی کیونکہ ہم نے ایک روزقبل ہی جاگتی آنکھوںدیکھے جانے والے خواب میں مستقبل کے ’’وزیر اعظم محترم‘‘ سے ملاقات کا شرف حاصل کر لیا۔یہ’’تعمیری سانحہ‘‘منی ایکسچینج سینٹر یعنی ’’ تبدُّلِ زرمرکز‘‘ میں پیش آیا۔اسکے تانے بانے کیسے بُنے گئے، ہم بیان کر رہے ہیں، توجہ فرمائیے : ’’ٹِلُو‘‘ہمارا ’’ٹاٹیا ‘‘ ہے یعنی وہ ہمارے ساتھ ’’ٹاٹ اسکول‘‘سے فارغ التحصیل ہے۔ وہ ایک گورے ملک میںبحیثیت پاکستانی تارک وطن مقیم ہے اور ڈالروں کے عوض روٹی کھاتا ہے جبکہ ہم ریالوںمیںروٹیاں توڑتے ہیں ۔ ہم چند روز کیلئے وطن عزیز پہنچے تو ’’ٹِلُو‘‘ بھی اتفاقاً پہنچ گیا۔ ہم سے ملاقات ہوئی تو اس سے چند لاکھ روپے طلب کر لئے۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کرڈالروں کو روپوں میں بدلوانے مرکز تبدُّلِ زر پہنچ گیا۔

اس نے آہنی پنجرے کے اندرموجودکاؤنٹر پر بیٹھے نوجوان کو5ہزارڈالر تھمائے اور کہا کہ ان کے روپے دے دیجئے ۔ اس نے 5 لاکھ سے زائدروپے کی پرچی دے کر کہہ دیا کہ ذرا انتظار فرمائیے۔ ہم وہاں بینچوں پربیٹھ گئے ۔ اتنے میں ایک منحنی و نستعلیق سی شخصیت جامہ تلاشی دینے کے بعد اس مرکزمیں داخل ہوئی۔موصوف عوامی خستہ حالی کی منہ بولتی تصویر لگ رہے تھے۔خد و خال صرف ہڈی اور چمڑے پر مبنی تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ حضرت کئی ماہ سے ’’جبری ڈائٹنگ‘‘پر مجبور ہیں جسے عرف عام میں ’’فاقہ کشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مرکز میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے سلام کیا اور چند ایک سے جواب ملنے کے بعد انہوں نے اپنے چشمے کو آگے پیچھے کر کے اپنا ’’فوکس‘‘ یعنی ’’نقطۂ نظر‘‘ درست کیا اور پھر مرکز میں موجود ہر ہر فرد کا تفصیلی جائزہ لیا۔ان تمام سکنات کے دوران محترم کا بایاں ہاتھ مسلسل پینٹ کی جیب میں رہا۔ اسی حال میں وہ آہنی پنجرے کے پیچھے براجمان نوجوان سے مخاطب ہوئے کہ محترم در اصل میرے پاس کچھ غیر ملکی کرنسی ہے جس کے بدلے میں پاکستانی نوٹ لینا چاہتاہوں۔

کیا مجھے مل جائیں گے؟ نوجوان نے دریافت کیا کہ کرنسی کس ملک کی ہے؟انہوں نے جواب دینے سے قبل اپنے دائیں بائیں اور سامنے و پیچھے کے حالات، ماحول اور معمولات کا باقاعدہ جائزہ لیا اور اس کے بعد پنجرے کے سب سے بڑے حلقے میں اپنا چہرہ گھسا کرآخری ممکنہ حد تک نوجوان کے کان کے قریب پہنچ کر سرگوشی کے انداز میں فرمایا کہ سعودی عرب کی کرنسی ہے ’’ریال ہیں ریال‘ ‘۔ کیا انکے عوض روپے مل جائیں گے؟نوجوان نے کہا جی ہاں مگرریال کتنے ہیں؟یہ سنتے ہی اُن صاحب کی کیفیت ایسی ہوگئی کہ کاٹو تو جسم میں خون نہیں۔انہوں نے فرمایا کہ میاں آپ کے سوا ل کا جواب تو ہم بعد میں دیں گے پہلے یہ وضاحت فرمادیں کہ ایک ریال کے بدلے کتنے روپے ملیں گے؟آہنی پنجرے میں ’’مقید کائونٹر‘‘ پر بیٹھے نوجوان نے جواب دیا کہ ایک ریال آپ ہمیں دیں گے تو ہم آپ کو28روپے 5پیسے دیں گے۔یہ سن کر اُن حضرت کی باچھیں کھِل گئیں، آنکھوںمیں سرخ ڈورے نمودار ہوگئے، جھکی ہوئی گرد ن ’’امارت‘‘ کے احساس سے تنتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔تفاخر سے مغلوب ہو کر انہوں نے ہر شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا کیونکہ وہ سوچ رہے تھے کہ ہر آنکھ مجھے رشک یا حسد کی نگاہ سے دیکھ رہی ہوگی۔

اپنے اکناف کا کامل جائزہ لینے کے بعدانہوں نے اسی پنجرہ نشیں سے سوال کیاکہ مجھے اپنی شناخت کیلئے کون کون سے ڈاکیومنٹس پیش کرنا ہوں گے؟ شناختی کارڈ کے علاوہ میٹرک کا سر ٹیفکیٹ، ایف ایس سی یا بی ایس سی کی سند، پاسپورٹ کی کاپی اور نکاح نامہ وغیرہ جو درکار ہو بتا دیں تاکہ بار بار چکر نہ لگانے پڑیں۔نوجوان نے سوال کیا کہ بڑے صاب، آپ کے پاس کتنے ریال ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میاں میرے پاس پورے 592 ریال ہیں۔ ان کے کتنے روپے بنیں گے؟نوجوان نے کہا کہ جناب یہ کُل 16605.60 روپے بنتے ہیں۔ انہوں نے نوجوان سے پھر استفسار کیا کہ کیا اتنی رقم آپ کے پاس موجودہوگی کہ آپ یکمشت 592ریال کی ’’اینکیشمنٹ‘‘کر دیں ؟نوجوان نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں،سب ہوجائے گا،آپ ریال دیں ۔انہوں نے چاروں طرف غور سے دیکھا کہ کہیں کوئی چور اُچکا تو موجود نہیں۔اس کے بعد دیوار کے پاس کونے میں گھس کر اپنی بائیں جیب سے ہاتھ باہر نکالا اور ریالوں کا ’’آخری مرتبہ‘‘ دیدار کر کے انہیں نوجوان کے حوالے کر دیا اور اسے تاکید کی کہ پائی پائی ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں صرف 16605 روپے دینا، باقی ماندہ رقم،’’ 60‘‘ پیسے آپ رکھ لینا۔نوجوان نے ان کی باتیں برداشت کیں اور انہیں رسید تھما کر کہا کہ کچھ دیر انتظار کر لیں۔ چند لمحے بینچ پر براجمان رہنے کے بعد وہ صاحب پھر اُٹھے اور ’’مقید‘‘ نوجوان سے کہنے لگے کہ برخوردار مجھے 5،5 ہزار کے نوٹ دیجئے گا تاکہ ’’کیری کرنا‘‘ آسان رہے کیونکہ رقم زیادہ ہے ناں۔نوجوان نے ان کی باتوں کو مسکرائے بغیر ہی سن لیا۔ہم اس نوجوان کی تحمل مزاجی کے دل سے قائل ہوگئے۔ اگلے ہی لمحے اس نوجوان نے ’’ٹلو‘‘کو بلایا اور5لاکھ سے زائد رقم دے کر کہا کہ تمام کیش یہیں گن لیںتاکہ اطمینان ہوجائے۔’’ٹلو‘‘نے سنی ان سنی کر دی۔

اس نے گن کر3لاکھ روپے ہمارے حوالے کئے اور باقی رقم گنے بغیر ہی تھیلے میں ڈالی اور ہمیں لے کر باہر نکل گیا ۔ ہمیں خیال آیا کہ کہاں ہمارے صاحبانِ اختیار کہ جو کسی شناخت اور دستاویز کے بغیر ہی ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے لے کر ٹھنڈے، گرم اور معتدل کسی بھی ملک پہنچ جاتے ہیں یا اربوں روپے کسی شخصیت کو دے کر اسے باہر بھجوا دیتے ہیں کہ ’’آپ چلئے،میں آپکے پیچھے آتا ہوں۔‘‘وہ نہ رقم کا ذریعہ بتاتے ہیں، نہ شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی منتقلیٔ زر کے اسباب و علل بیان کرتے ہیںاور کہاں یہ منحنی و نستعلیق قسم کی ہستی کہ جو نہ صرف شناختی کارڈ سے لے کر نکاح نامے تک ہر دستاویز پیش کرنے کیلئے تیار ہے بلکہ 60پیسہ فی ریال ’’تحفتاً‘‘ دینے کے لئے بھی تیار ہے ۔اگر یہ نستعلیق ہمارے ملک کے بااختیار صاحبان میں شامل ہو جائیں تو پانامہ ہی کیا، دنیا بھر کے کسی بھی ملک کی لیکس میں ہمارے کسی کرتا دھرتا کا نام شامل ہو کر ملک و قوم کے ماتھے کا کلنک نہیں بن سکے گا۔ اے کاش بدعنوانوں سے پاک مستقبل کا یہ خواب حقیقت بن کر منصۂ شہود پر آجائے۔

شیئر: