Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیدناسلمہ بن ا کوعؓ ، اسلامی لشکر کے بہترین پیادہ

میں اتنا تیز دوڑ تا ہوں کہ اگر کوئی میرے پیچھے دوڑے گا تو مجھے پا نہیں سکتا، اگر تم لوگ دوڑوگے تو میرے لئے تمہیں پانا قطعاً مشکل نہیں

*عبدالمالک مجاہد۔ریاض*

مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب مدینہ شریف کی طرف جائیں تو تھوڑے فاصلے پر وادیٔ فاطمہ ہے۔ اس جگہ کو زمانہ قدیم میں مرالظہران کہاجاتا تھا۔ اس جگہ کے قرب وجوار میں بنو اسلم کا قبیلہ آباد تھا جو بنو قمعہ کی ایک شاخ ہے۔ اس قبیلہ کے ایک نوجوان سلمہ بن عمرو بن اکوع غزوۂ خندق کے کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوئے اور ہجرت کرکے مدینہ شریف پہنچ گئے۔ بادیہ کے رہنے والے سلمہ بہت لمبے قد کے تنو مند نوجوان تھے۔ ان کے ہاتھ لمبے لمبے تھے۔ قدرت نے ان کو بے پناہ طاقت اور قوت بخشی تھی۔ یہ اتنا تیز دوڑ تے تھے کہ حافظ ابن حجر کے مطابق گھوڑے سے بھی آگے نکل جاتے تھے۔ تیر اندازی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ جب مدینہ طیبہ پہنچے تو مشہور صحابی ابوطلحہ انصاریؓ کے پاس کام کرنے لگے۔ان کے گھوڑے کی دیکھ بھال کرتے، پانی پلاتے اورچارے کا اہتمام کرتے تھے ۔ اسکے بدلے حضرت ابوطلحہؓ انکو کھانا پینا اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کردیتے تھا۔ وہ وقت بڑا سادہ تھا۔ نہ زیادہ تکلف تھا نہ ہی زیادہ لوگوں کی ضروریات تھیں۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس کام کرنے کے علاوہ اللہ کے رسول کے ایک نڈر سپاہی بھی تھے۔ جب آپ غزوات کیلئے تشریف لے جاتے تو یہ بھی مجاہدین میں پیش پیش ہوتے۔ اللہ کے رسول بھی ان سے خوب محبت فرماتے تھے۔

صلح حدیبیہ 6 ہجری میں ہوئی۔ اللہ کے رسول 1400 صحابہ کرامؓ کیساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ مدینہ طیبہ سے نکلے تو ذوالحلیفہ کے مقام پر عمرہ کا احرام باندھا۔ آپ کیساتھ جو صحابہ کرامؓ تھے، ان میں سیدنا سلمہ بن اکوع بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں یہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہؓ کیلئے کام کرتے تھے اور ان کے گھوڑے کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے۔

جب مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو آپ نے وہاں قیام فرمایا۔ آج کل یہ مقام جدہ سے مکہ جاتے ہوئے قدیم روڈ پر’’ الشمیسی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ قریش نے آپ کو عمرہ کرنے سے روک دیا۔ قریش کی طرف سے سفراء آتے رہے۔ اللہ کے رسول نے بھی اپنے داماد سیدنا عثمان بن عفانؓ کو اپنا پیغا م دے کر مکہ بھیجا۔ ان کے رشتہ دار مکہ مکرمہ میں کافی تعداد میں موجود تھے۔ انکو واپسی میں قدرے تاخیر ہوئی تو افواہ پھیل گئی کہ انکو شہید کردیا گیا ۔ اللہ کے رسول نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر صحابہ کرام ؓسے بیعت لی ۔ یہ بیعت اس بات پر تھی کہ ہم میدان جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ ایک جماعت نے موت پر بیعت کی یعنی مرجائیں گے مگر میدان جنگ چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔

سب سے پہلے جس صحابی کو بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا ان کا نام ابوسنان اسدی تھا۔ بیعت شروع ہوئی تو صحابہ کرامؓ ٹوٹ پڑے۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی شروع میں ہی بیعت کرنے والوں میں شامل تھے۔ صحابہ کرامؓ بیعت کررہے تھے کہ اللہ کے رسول نے آواز دی۔ سلمہ بن اکوع! وہ قریب ہی کھڑے تھے ،عرض کی: اللہ کے رسول !میں حاضر ہوں۔آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تم بیعت نہیں کروگے۔ سیدناسلمہؓ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول !میں تو آپ کی بیعت کرنے کی سعادت حاصل کرچکا ہوں۔ آپ نے اشارہ کیا توسیدنا سلمہؓ نے دوسری مرتبہ پھر بیعت کی۔ صحابہ کرامؓ بیعت کررہے تھے، اب تھوڑے ہی باقی رہ گئے تھے کہ اللہ کے رسول نے پھر ارشاد فرمایا : سلمہؓ کیا تم بیعت نہیں کروگے؟۔ عرض کی کہ اللہ کے رسول !میں تو2مرتبہ بیعت کرچکا ہوں۔ یہ محبت اور پیار کا ایک انداز تھا۔ آپ نے اشارہ کیا کہ بیعت کرلو ۔ سیدنا سلمہؓ نے تیسری مرتبہ بیعت کی۔

شروع میں ،درمیان میں اور اخیر میں 3 مرتبہ بیعت کی۔ اللہ کے رسول ان کوایک اور اعزاز بخشتے ہیں کہ حدیبیہ میں جب پہلی رات قیام فرمایا تو ان کو قافلے کا نگراں مقرر کیا۔ یہ اتنے بہادر تھے کہ حدیبیہ میں جب صلح ہوگئی ، دستاویزپر دستخط ہوگئے ، لوگ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے لگے تو کفار کے کچھ لوگوں نے دھوکے سے حملہ کرنا چاہا تو اکیلے سلمہ ؓنے ان پر قابو پالیا اور انہیں ہانکتے ہوئے اللہ کے رسول کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ۔ان لوگوں کو اللہ کے رسول نے معاف کردیا۔ سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کے ساتھ7 غزوات میں حصہ لیا ۔ اس کے علاوہ 2 اور جنگوں میں بھی شرکت کی۔ ایک کے سپہ سالار سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور دوسری جنگ کے سپہ سالار سیدنازید بن حارثہؓ تھے۔ جس جنگ میں یہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل تھے اس کو سریہ وادی القریٰ کہا جاتا ہے۔ ہمارے قائین کے لئے بنو فزارہ کا نام اجنبی نہ ہوگا۔ یہ لوگ مدینہ کے شمال میں خیبر اور مدینہ کے درمیان رہتے تھے۔ اللہ کے رسول کے سخت دشمن تھے۔ جنگ خندق میں بھی یہ پیش پیش تھے۔ رمضان 6 ہجری میں اللہ کے رسول کو اطلاع ملی کہ یہ لوگ آپ کو دھوکے سے قتل کرنے کا پروگرام بنارہے ہیں چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو آپ نے اس قبیلہ کی بیخ کنی کے لئے روانہ فرمایا۔ اس سریہ میں حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ صبح کی نماز کے بعد ان پر چھاپا مارا گیا۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ حضرت سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے تھے۔ ام فرقہ نامی عورت ایک شیطان صفت عورت تھی۔ یہ اللہ کے رسول کے قتل کی تدبیریں کیا کرتی تھی۔ اس نے اپنے خاندان کے 30 شہسوار بھی تیار کررکھے تھے۔ ام قرفہ اس جنگ میں اپنے شہسواروں کو جنگ کے لئے اکسارہی تھی۔اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو عرب کی خوبصورت ترین لڑکیوں میں سے ایک تھی۔حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ان سب کو لے کر سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس سریہ میں ام قرفہ کے تمام شہسوار قتل ہوگئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے وہ خوبصورت لڑکی سیدنا سلمہ کو عطا کردی۔ یہ اسے لے کر مدینہ منورہ آئے تو اللہ کے رسول نے ان سے یہ لڑکی مانگ لی۔اللہ کے رسول کے ساتھ ان کی محبت کو ملاحظہ کریں ۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے از خود اللہ کے رسول کو یہ لڑکی پیش کی۔ اللہ کے رسول نے اس لڑکی کو مکہ بھیج دیا اور اس کے عوض متعدد مسلمان قیدیوںکو رہا کروالیا۔ سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی بہادری عزوہ ذی قرد میں سامنے آئی ۔ یہ غزوہ صلح حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے پیش آیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ بنو غطفان اور بنو فزارہ مدینہ کی ریاست کے شدید دشمن تھے۔ یہ لوگ بڑے طاقتور اور اعداد وشمار کے اعتبار سے بھی خاصی بڑی تعداد میں تھے۔ مدینہ کیخلاف ہر وقت شرارتیں اور سازشیں کرتے رہتے تھے۔

اللہ کے رسول نے خیبر کی طرف ذی قرد نامی چشمہ پر اپنے اونٹوں کی چراگاہ بنا رکھی تھی۔ وہاں پر اللہ کے رسول کا چرواہا اپنی عورت کے ساتھ مقیم تھا۔ بنو فزارہ کے کچھ لوگوں نے اللہ کے رسول کے اونٹوں پر ڈاکا ڈالا۔ انہوں نے چرواہے کو شہیداور عورت کو گرفتار کر کے ہمراہ لے گئے۔ ادھر اللہ کے رسول کے ایک غلام رباح بھی وہاں اللہ کے رسول کی اونٹیوں کی رکھوالی کیلئے موجود تھے۔ اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سیدنا ابوطلحہؓ کیلئے کام کرتے تھے۔ انکا گھوڑا ان کے پاس تھا۔ جب عبدالرحمن فزاری اونٹ لے کر بھاگا توسیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے رباح کو ا بوطلحہ کا گھوڑا دیتے ہوئے کہا کہ جلدی سے مدینہ جاؤ اور اللہ کے رسول کو ساری صورتحال سے مطلع کرو اور گھوڑا بو طلحہ کو واپس کردینا۔ رباح اللہ کے رسول کو اطلاع دینے کیلئے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور خودسیدنا سلمہ بن اکوع ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے پکار رہے ہیں ’’ یا صباحاہ، یا صباحاہ۔ ‘‘ہائے صبح کا حملہ، ہائے صبح کا حملہ۔ ان کی آواز بڑی بلند تھی۔ ادھر مدینہ تک خبر پہنچی ادھر ان کی یہ شان کہ اکیلے ہی دشمن کے پیچھے پیدل چل پڑے۔ اس روزسیدنا سلمہ نے بہادری ، جواں مردی کی ایسی داستان رقم کی کہ تاریخ میں بہت کم ایسی مثالیں ہیں۔سیدناسلمہ بڑے زبردست تیر انداز تھے۔ انہوں نے ترکش سنبھالا اور دوڑتے ہوئے دشمن کے قریب پہنچ گئے۔ جب وہ نشانے پر آگئے تو تیر برسانا شروع کردیئے۔ تیر اپنے نشانے پر لگ رہے تھے۔ بلند آواز سے وہ رجز پڑھ رہے تھے ’’میں اکوع کا بیٹا ہوں ، آج معلوم ہوجائے گا کہ کون اپنی ماں کے دودھ کا حق ادا کرتا ہے۔‘‘ اب ذرا غور کیجئے پہاڑی علاقہ جہاں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے درخت بھی تھے۔ سیدناسلمہ دشمن کو نقصان پہنچاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔

اگر کبھی دشمن جوابی کارروائی کرنے کے لئے پیچھے پلٹ کر دیکھتا تو یہ کسی درخت کے پیچھے چھپ جاتے اورتیر مار کر زخمی کردیتے۔اس دوران دشمن پہاڑ کے تنگ راستے میں داخل ہوا تو یہ پہاڑ کے اوپر چڑھ گئے اور پتھروں سے ان کو مارنے لگے۔ دشمن سخت پریشان ہوئے اور وہ بتدریج آپ کی اونٹیاں چھوڑتا ہوا آگے بھاگتے رہے حتیٰ کہ اللہ کے رسول کی تمام اونٹنیاںسیدنا سلمہؓ نے چھڑوالی، مگر انہوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دشمن اپنے بوجھ کو کم کرنے کے لئے اپنے تیر اور چادریں پھینکتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ وہ جو بھی چیز پھینکتے سدینا سلمہ بن اکوع اس پر بطو ر نشان تھوڑے سے پتھر ڈال دیتے تاکہ جب اللہ کے رسول آئیں تو آپ کو معلوم ہوجائے کہ یہ دشمن سے چھینا ہوا مال ہے۔ اس طرح دشمن نے 30 تیر اور اتنی ہی چادریں پھینکی تھیں۔دشمن سخت تھک گیا تھا اس لئے ایک گھاٹی کے تنگ موڑ پر بیٹھ کر دو پہر کا کھانا کھانے لگے۔ اِدھر یہ کھانا کھانے بیٹھے اُدھر سلمہ بن اکوع بھی ایک چوٹی پر جا بیٹھے۔ دشمن نے دیکھا کہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک آدمی ہے تو اُن کے4 آدمی پہاڑ پر چڑھ کر ان کی طرف آئے۔ جب وہ اتنے قریب آگئے کہ ان کی بات وہ سن سکیں تو یہ ان سے کہنے لگے کہ تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں۔ سیدناسلمہ کہنے لگے کہ میں سلمہ بن اکوع ہوں۔ پھر انہوں نے جو الفاظ کہے وہ پڑھنے والے ہیں، کہنے لگے : ’’میں اتنا تیز دوڑ تا ہوںکہ اگر کوئی میرے پیچھے دوڑے گا تو مجھے ہرگز پا نہیں سکتا، اگر تم لوگ دوڑوگے تو میرے لئے تمہیں پانا قطعاً مشکل نہیں۔‘‘ سیدنا سلمہ کی بات میں بڑا وزن اور سچائی تھی۔ دشمن کو اندازہ ہوگیا کہ ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے اس لئے وہ واپس چلے گئے۔ قارئین کرام: اِدھر سیدناسلمہ بن اکوع اپنی کارروائی کرتے رہے۔ اکیلے پورے لشکر کو مصروف رکھا اور اُدھر اللہ کے رسول کے غلام رباح ابوطلحہ انصاری کے گھوڑے پر مدینہ پہنچے۔انہوں نے اللہ کے رسول کو سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے صحابہ کرام کو فوری تیاری کا حکم دیا چنانچہ اللہ کے رسول اپنے صحابہ کرام کے ساتھ وہاں پہنچے ۔ سیدنا سلمہ بن اکوع نے دیکھاکہ سب سے آگے اخرم اسدی ہیں۔

ان کے پیچھے ابو قتادہ انصاری اور پھر مقداد بن اسود کندی تھے۔ اخرم اسدی جب دشمن کے قریب پہنچے تو سیدناسلمہ بن اکوع نے ان سے کہا :اخرم ذرا احتیاط برتنا، کہیں دشمن تمہارے اوپر قابو نہ پالیں۔ ذرا ٹھہرجاؤ حتیٰ کہ اللہ کے رسول اپنے صحابہ کے ساتھ پہنچ جائیں۔ ذرا اخرم کا شوقِ شہادت دیکھئے، کہنے لگے : ’’سلمہ اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور یقین رکھتے ہو کہ جنت وجہنم حق ہیں تو پھر میرے اور شہادت کے درمیان حائل نہ ہونا۔‘‘ سیدناسلمہ پیچھے ہٹ گئے ۔ عبدالرحمن فزاری اور اخرم کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا۔ عبدالرحمن نے حسب روایاتِ عرب اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں اور اخرم کے ساتھ مقابلہ شروع کردیا۔ اس انفرادی جنگ میں عبدالرحمن غالب آگیا اور اخرم شہید ہوگئے۔ اس نے آگے بڑھ کر ان کے گھوڑے پر قابو پالیا اور آگے بڑھنے لگا تو اسی دوران اللہ کے رسول کے شہسوار صحابی سیدناابو قتادہ آگے بڑھے اور عبدالرحمن کو روکا۔ دونوں میں مقابلہ ہوا اورسیدنا ابوقتادہ عبدالرحمن فزاری کو واصل جہنم کردیتے ہیں۔سیدنا سلمہ بن اکوع اس واقعہ کو سناتے ہوئے بار بار کہتے ہیں: ’’ اس ذات کی قسم جس نے محمد کے چہرے کو عزت اور وقار بخشا ہے،میں پیدل ہی دشمن کے پیچھے چل پڑا۔ اب غروب آفتاب ہونے والا تھا۔ میں نے صبح سے شام تک ان لوگوں کو خوب الجھائے رکھا تھا۔ اب رسول اللہ بھی پہنچ چکے ہیں۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اللہ کے رسول! اگر آپ مجھے صرف ایک سو آدمی دے دیں تو میں زین سمیت ان کے تمام گھوڑے چھین لوں گا اور ان کی گردنیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں حاضر کردوں گا۔ ہمیشہ مسکرانیوالے اس نبی اطہر نے ارشاد فرمایا: اکوع کے بیٹے اگر تم نے ان پر قابو پالیا ہے تو اب ذرا نرمی برتو۔‘‘ سیدناسلمہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ صبح سے پیاسے تھے۔

ان لوگوں نے ایک گھاٹی کی طرف رخ موڑا جس میں ذی قرد نام کا ایک چشمہ تھا۔ یہ لوگ پیاسے تھے وہاں سے پانی پینا چاہتے تھے مگر میں نے انہیں اس چشمہ سے دور ہی رکھا۔ قارئین کرام!اس غزوہ میں سب سے زیادہ حصہ سیدنا سلمہ بن اکوع کا تھا۔ اس کے بعد سیدنا ابوقتادہ جنہوں نے اس غزوہ میں کافروں کے سردار اور نبو فزارہ کے رئیس کے بیٹے عبدالرحمن کو واصل جہنم کیا تھا۔ اللہ کے رسول نے اپنے ان صحابہ کرام کی قدر اور توقیر اس طرح فرمائی کہ ان کو تمغۂ بسالت عطا فرمایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ہمارے سب سے بہتر شہسوار ابوقتادہ ہیں اور سب سے بہتر پیادہ یعنی پیدل جنگ کرنے والے سلمہ ہیں۔ سیدنا سلمہ بن اکوع کو ایک اور شرف بھی ملا کہ آپ نے مال غنیمت میں ان کو 2حصے عطا فرمائے۔ ایک پیدل اور دوسرا شہسوار کا ۔ قارئین کرام!یہیں تک بس نہیں بلکہ جب آپ واپس مدینہ تشریف لیجانے لگے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے توسیدنا سلمہ سے فرمایا : سلمہ تم بھی میرے پیچھے سوار ہوجاؤ۔ وہ منظر کتنا خوبصورت اور سلمہ کے لئے کتنا بڑا اعزاز تھا کہ وہ اللہ کے رسول کے ردیف ہیں۔ مدینہ منورہ سے واپسی پر یہ اللہ کے رسول کے ساتھ اونٹنی پر سفر کررہے ہیں ۔ ایک انصاری صحابی جو نہایت تیز دوڑتے تھے انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی ہے جو مدینہ تک میرے ساتھ دوڑ لگائے۔ دیگر صحابہ کرام یہ سن کر خاموش رہے کیونکہ وہ صحابی بڑے تیز رفتار تھے۔ معزز قارئین!ہمیں یہاں سمجھنا چاہئے کہ اللہ کے رسول بھی اس قسم کے مسابقوں کو پسند فرماتے تھے۔ یہ عسکری تربیت ہے اور اُسوقت جنگ میں شخصی طاقت کا بڑا حصہ تھا۔ انصاری صحابی بار بار کہہ رہے تھے کہ کوئی ہے میرا مقابلہ کرنے والا؟ سیدناسلمہ کچھ دیر تو صبر کرتے رہے ،جب بار بار سناکہ کون ہے جو میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرے تو اللہ کے رسول سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، ذرا آپ ؐمجھے اجازت مرحمت فرمائیں میں اس کے ساتھ دوڑ لگا لوں۔ آپنے ارشاد فرمایا: ہاں اگر تم چاہو تو ٹھیک ہے۔ سیدنا سلمہ ان صحابی کے پاس گئے اور کہا کہ چلو مقابلہ کرتے ہیں مگر ایسا ہے کہ تم مجھ سے پہلے بھاگ کر فلاں دور جگہ پہنچ جاؤ۔ جب تم وہاں پہنچ جاؤگے تو پھر میں تمہارے پیچھے آؤںگا۔ تم بھاگتے چلے جاؤ چنانچہ وہ انصاری صحابی بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھاتو سیدنا سلمہ ابھی وہیں کھڑے ہیں۔ پھرسیدنا سلمہ نے ان کے پیچھے بھاگنا شروع کیا اور اسے قوت اور طاقت کہتے ہیں ،سیدنا سلمہ اتناتیز بھاگے کہ جلد ہی اس انصاری صحابی کو پالیا اور ان کی پشت پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ہاں بھئی کیسا رہا ہمارا مقابلہ؟ میں مقابلہ جیت گیا۔ ان صحابی نے بھی خوش دلی سے ان کی فتح کو قبول کیا۔ سیدناسلمہ بن اکوع نے لمبی عمر پائی۔ سیدنا عثمان بن عفان کی شہادت کے بعد یہ مدینہ چھوڑ کر ربذہ میں مقیم ہوگئے۔ ربذہ مدینہ سے ریاض جانے والی پرانی سڑک کے کنارے واقع ہے۔ یہ مقام حناکیہ سے زیاہ دور نہیں ۔ انہوں نے وہاں کی ایک خاتون سے شادی کی اور ان سے اولاد بھی ہوئی۔ 74 ہجری میں واپس مدینہ شر یف تشریف لائے۔ چند دنوں کے بعد وفات پائی۔

شیئر: