Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان: چلغوزوں کے جنگلات میں تیسری مرتبہ آگ لگی گئی، 3 افراد ہلاک

بلوچستان میں چلغوزوں کے قیمتی جنگلات میں دو ہفتوں کے دوران تیسری مرتبہ آگ لگ گئی۔ آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران تین مقامی افراد جھلس کر ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے۔ 
حکام کا کہنا ہے کہ آگ خیبر پشتونخوا سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزوں کے جنگل کے زیادہ گھنے حصے میں لگی ہے جس کی لپیٹ میں قریبی انسانی آبادیوں کے آنے کا خطرہ ہے اس لیے لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کردی ہے۔
کمشنر ژوب ڈویژن بشیر احمد بازئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ تین افراد آگ کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہوگئے۔ تینوں مقامی کمیونٹی کے لوگ تھے جو محکمہ جنگلات اور لیویز فورس کے اہلکاروں کے  ہمراہ آگ بجھانے کے لیے پہاڑ کی بلندی پر گئے تھے۔
شیرانی کے فارسٹ افسر عتیق خان کاکڑ کے مطابق آگ بجھانے کے لیے جانے والے سات افراد خود آگ کی لپیٹ میں آکر افراد پھنس گئے جن میں سے ایک نے بمشکل جان بچائی۔
’اس کے جسم پر کپڑے جل گئے تھے جس نے واپس آکر لوگوں کو اطلاع دی۔ باقی پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کے لیے ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئیں جنہوں نے تین افراد کو زندہ مگر زخمی حالت میں ریسکیو کرلیا ہے جبکہ تین افراد کی لاشیں ملی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لاشوں اور زخمیوں کو پہاڑ سے اتارنے میں بھی ہمیں مشکلات پیش آرہی ہیں، آگ کی شدت کے باعث مزید جانی نقصان کا خطرہ موجود ہے۔
فارسٹ افسر نے بتایا کہ یہ آگ (بدھ کی شام کو) خیبر پشتونخوا میں لگی اور وہاں سے پھیلتے ہوئے بلوچستان کے ضلع شیرانی کی یونین کونسل شرغلی، سرغلئی اور تخت سلیمان کے علاقوں تک پہنچ گئی جہاں باقی علاقوں کی نسبت چلغوزوں کے زیادہ گھنے جنگلات واقع ہیں۔ 24 گھنٹوں میں یہ آگ 10 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیل چکی ہے۔ 
انہوں نے بتایا کہ خیبر پشتونخوا سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاع شیرانی اور موسیٰ خیل میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں واقع چلغوزوں اور زیتون کے قدرتی جنگلات میں گذشتہ دس دنوں کے دوران تیسری مرتبہ آگ لگی ہے۔

آگ بجھانے کے لیے این ڈی ایم اے اور فوج سے مزید ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’موسیٰ خیل میں آگ پر تیسرے دن قابو پالیا گیا جبکہ شیرانی کے علاقے دانا سر تور غر میں لگنے والی آگ کو دن گزرنے کے باوجود بجھایا نہیں جاسکا تاہم اسے مزید پھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔دس دنوں میں آگ نے 20 کلومیٹر رقبے پر پھیلے لاکھوں درخت اور جڑی بوٹیوں کو تباہ کردیا جبکہ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نئی آگ کی شدت گذشتہ ہفتے لگنے والی آگ سے بہت زیادہ ہے۔ آگ کی تپش اتنی زیادہ ہے کہ 700 گز سے زیادہ نزدیک جانا ممکن نہیں۔ درختوں پر لگی آگ کے شعلے بلندی سے نیچے گر رہے ہیں جس کی وجہ سے ریسکیو کا کام بہت مشکل ہوگیا ہے۔‘
کمشنر ژوب ڈویژن بشیر بازئی کا کہنا ہے کہ آگ کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ اسے پیدل جاکر بجھانا ممکن نہیں لگ رہا اس لیے ہم نے صوبائی اور مرکزی حکومت سے مدد مانگی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اے، این ڈی ایم اے اور آرمی ایوی ایشن نے فضائی آپریشن شروع کیا، دو ہیلی کاپٹروں نے ژوب میں سبکزئی ڈیم سے پانی بھر کر آگ بجھانے کی کوشش کی مگر وہ مؤثر ثابت نہیں ہوئی۔
’فیصلہ کیا گیا تھا کہ دو ہیلی کاپٹر دن میں تین مرتبہ چکر لگائیں گے مگر فضائی جائزہ لینے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آگ کی شدت زیادہ ہے اور اسے اتنی آسانی سے بجھایا نہیں جاسکتا۔

سیکریٹری جنگلات بلوچستان دوستین جمال دینی کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے واقعات کی تحقیقات کرانا مقامی انتظامیہ کا کام ہے (فوٹو: اردو نیوز)

فارسٹ افسر عتیق کاکڑ کے مطابق محکمہ جنگلات کے پاس شیرانی میں عملے کی تعداد 40 سے زیادہ نہیں اس لیے ہم نے لیویز اور پی ڈی ایم اے سے مدد مانگی ہے مگر پی ڈی ایم اے سے اب تک ریسکیو ٹیمیں نہیں پہنچیں۔
’ہمیں ہیلی کاپٹرز بھی ایک ہفتے بعد فراہم کیے گئے ۔ انہوں نے بہت بلندی سے پانی کا سپرے کیا مگر وہ مؤثر ثابت نہیں ہوا، ہیلی کاپٹر آگ کے شعلوں کی وجہ سے زیادہ نیچے نہیں آرہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جدید آلات نہیں، مقامی لوگ اور محکمہ جنگلات کے اہلکار بے سروسامانی کی حالت میں مٹی پھینک کر اور درخت کی شاخیں توڑ کر آگ بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
کوئٹہ میں پرونشل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے انچارج محمد یونس کے مطابق آگ بجھانے کے لیے گراؤنڈ پر ہونے والی کوششیں مؤثر ثابت نہیں ہورہیں اس لیے فضائی آپریشن شروع کیا گیا ہے۔
’ہم نے این ڈی ایم اے اور فوج سے مزید دو سے تین ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔‘
محکمہ جنگلات کے افسر عتیق کاکڑ کا کہنا ہے کہ آگ لگنے سے ہونے والا نقصان کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں روپے میں ہوسکتا ہے کیونکہ اس علاقے سے ہر سال لاکھوں کلوگرام چلغوزہ حاصل کیا جاتا ہے۔

آگ سے قریبی آبادی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور لوگوں نے علاقے سے نقل مکانی شروع کردی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

خیال رہے کہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں میں یہ دنیا میں چلغوزوں کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے، اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ایک اندازے کے مطابق شیرانی میں 26 ہزار ہیکٹر پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے۔
شیرانی میں چلغوزوں کے جنگلات کی بحالی کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کے یحییٰ موسیٰ خیل کے مطابق متاثرہ علاقے میں نہ صرف چلغوزوں، زیتون اور پھلائی کے قیمتی جنگلات واقع ہیں بلکہ یہاں بہت سے نایاب جنگلی جانور اور پرندے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں آگ کی وجہ سے سخت نقصان پہنچا ہے۔
متاثرہ علاقے کے قبائلی رہنما ملک عبدالستار نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ چلغوزوں کے جنگلات حکومت نہیں بلکہ قبائل کی ملکیت ہیں جہاں سے وہ ہر سال کروڑوں اربوں روپے کا چلغوزہ حاصل کرتے ہیں،
’یہ جنگل یہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چلغوزے کا ایک درخت لاکھوں روپے قیمت رکھتا ہے اب سب کچھ ہمارے سامنے جل کر تباہ ہورہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم درختوں کے جلنے سے نہیں بلکہ اپنے گھروں کے تباہ ہونے سے ڈر رہے ہیں کیونکہ آگ بہت تیزی سے آبادی کی طرف پھیل رہی ہے۔
ان کے بقول متاثرہ علاقے میں 15 سے 20 گاؤں واقع ہیں جن میں سینکڑوں لوگ رہائش پذیر ہیں، بعض ایسے بھی گھر ہیں جس کے اندر چلغوزے کے درخت واقع ہے، اگر آگ آبادی تک پھیل گئی تو مزید انسانی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

 شیرانی میں 26 ہزار ہیکٹر پر محیط اس جنگل میں چلغوزے کی سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد پیداوار ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ جنگلات کے اہلکار مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر آگ بجھانے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں، یہ ان کے بس کی بات نہیں اس لیے وفاقی و صوبائی حکومتیں اور فوج آگ بجھانے کی کوششوں میں ہماری مدد کریں۔
فارسٹ افسر عتیق کاکڑ کے مطابق متاثرہ علاقے سے اب تک 300 سے زائد افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ باقی لوگ بھی اپنا قیمتی سامان اور سب کچھ چھوڑ کر صرف بال بچوں کو لے کر جان بچانے کے لیے محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ موسیٰ خیل میں لگنے والی آگ آسمانی بجلی گرنے سے لگی تھی جبکہ شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجوہات اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔
علاقے میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’اشر تحریک‘ کے بانی سالمین خپلواک کا کہنا ہے کہ بار بار جنگلات میں آگ لگنا کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہوسکتی، یہ کوئی سازش ہے اور اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال نومبر میں موسیٰ خیل میں زیتون کے جنگلات میں آگ لگنے سے 800 درخت تباہ ہوگئے تھے ہم نے اس وقت تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر حکومت نے اسے نظرانداز کیا۔

شیرانی میں 26 ہزار ہیکٹر پر محیط اس جنگل میں سالانہ 6 لاکھ کلوگرام سے زائد چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اگر آگ لگنے کے چھوٹے واقعات کی تحقیقات کی جاتیں تو آج یہ بڑا نقصان نہیں ہوتا۔‘ انہوں نے آگ بجھانے کے لیے محکمہ جنگلات کے پاس ناکافی وسائل پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
فارسٹ افسر عتیق کاکڑ کا کہنا ہے کہ جنگلات قبائل کی ملکیت ہیں اور ان کے درمیان تضادات پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں ایک دوسرے کے جنگلات کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا۔
’اس کے علاوہ چرواہوں اور خانہ بدوشوں کی جانب سے بھی ضرورت کے لیے لگائی جانے والی آگ بے قابو ہوکر پھیلنے کے واقعات ہوچکے ہیں۔‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران تین مختلف مقامات پر آگ لگنے کے واقعات تخریب کاری ہوسکتی ہے ۔
سیکریٹری جنگلات بلوچستان دوستین جمال دینی کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے واقعات کی تحقیقات کرانا مقامی انتظامیہ کا کام ہے۔

شیئر: