Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

100 سے زائد نامور صحافیوں کا غزہ میں غیر ملکی میڈیا کو رسائی دینے کا مطالبہ

سرائیل کی غزہ میں حالیہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 200 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
100 سے زائد نامور صحافیوں نے غزہ کی پٹی تک فوری اور غیر مشروط غیر ملکی پریس کو رسائی دینے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے اسرائیل پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ وہ اس علاقے کی ناکہ بندی ختم کرے۔
یہ پٹیشن ’فریڈم ٹو رپورٹ‘ کے تحت شروع کی گئی ہے، جو صحافیوں کے تحفظ اور دنیا بھر میں صحافتی آزادی کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔
اس پر دستخط کرنے والوں میں سکائی نیوز کی سپیشل رپورٹر ایلیکس کرافورڈ، براڈکاسٹر مہدی حسن، سی این این کی کرسٹین امان پور اور کلاریسا وارڈ، اور معروف جنگی فوٹوگرافر ڈان میکولن شامل ہیں۔
پیر کے روز جاری کردہ بیان میں کہا گیا ’یہ صرف غزہ کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ دنیا بھر میں جنگی علاقوں میں زمین پر آزاد رپورٹنگ کے آفاقی حق کے دفاع کے بارے میں ہے۔‘
’غزہ اس وقت سب سے زیادہ فوری معاملہ ہے، لیکن یہ واحد مثال نہیں۔ یہ صحافیوں کو خاموش کرنے اور میڈیا پر پابندی لگانے کے انتہائی سنگین رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر جمہوری دنیا واقعی اس آزادی کے زوال کے خلاف کھڑی ہونا چاہتی ہے، تو وہ غزہ سے نظریں نہیں چرا سکتی۔‘
چونکہ اسرائیل اب تک بین الاقوامی میڈیا کو رسائی دینے سے انکار کرتا آیا ہے، اس لیے دنیا بھر میں خبروں کا انحصار تقریباً مکمل طور پر غزہ میں موجود فلسطینی صحافیوں پر رہا ہے۔ وہ پچھلے تقریباً 22 ماہ سے شدید حالات میں کام کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے اب تک انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا اداروں کے مطالبات کو نظرانداز کیا ہے کہ غیر ملکی رپورٹرز کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔
تاہم حالیہ ہفتوں میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور امدادی ماہرین کی جانب سے اسرائیلی ناکہ بندی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط پر بڑھتی ہوئی تشویش کے باعث دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ماہ، بڑی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں — جیسے اے ایف پی، ایسوسی ایٹڈ پریس، روئٹرز، اور بی بی سی، نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں ان کے مقامی عملے کو نکالنے کے لیے ایک انسانی راہداری کی اپیل کی گئی، کیونکہ ان میں سے کچھ کے پاس زندہ رہنے کے لیے بھی کافی خوراک نہیں تھی۔
اسرائیل کی غزہ پر حالیہ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً 200 صحافی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت فلسطینیوں کی ہے۔
پٹیشن میں فوری رسائی اور میڈیا کارکنان کے تحفظ کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ’جارح فریق‘ ان مطالبات کو نظر انداز کرتے رہے تو صحافی بغیر اجازت غزہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔
وہ کسی بھی جائز طریقے سے، انفرادی طور پر، اجتماعی طور پر یا انسانی یا سول سوسائٹی کے اداروں کے تعاون سے رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
خط میں کہا گیا کہ ’یہ پابندیاں دنیا کو ایک غیر جانبدارانہ تصویر سے محروم کر دیتی ہیں اور احتساب کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔‘

شیئر: