Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پرانے ڈیٹا کا استعمال؟

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں کرپشن میں اضافے کے بعد پاکستان دنیا میں 140 ویں نمبر پر آ گیا تھا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت نے تحریک انصاف کے دور میں کرپشن سے متعلق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں استعمال ہونے والے ڈیٹا کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈیٹا پاکستان میں کرپشن میں اضافے کی حقیقی تصویر پیش نہیں کرتا۔
سینیٹ آف پاکستان میں وزارت قانون کی جانب سے جمع کروائے گئے ایک تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے لیے مینڈیٹ نیب کے پاس ہے۔ نیب کا ادارہ آگاہی، تدارک اور انفورسمنٹ کے ذریعے کرپشن کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔
’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کرپشن انڈیکس آٹھ بنیادی نکات پر مبنی ہوتا ہے جن میں اکثریت کا تعلق گورننس سے ہے۔ اس لیے نیب نے اس حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ کرنے اور جواب دینے سے معذرت کی ہے۔‘
جواب میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بنیادی طور پر آٹھ نکات کی بنیاد پر رپورٹ مرتب کی اور ان میں سے تین انڈیکیٹرز میں پاکستان کی تین درجے تنزلی ہوئی۔
’اس مقصد کے لیے جن آٹھ نکات کا جائزہ لیا گیا اور اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے جو ڈیٹا استعمال کیا گیا اس میں کچھ ڈیٹا پرانا یعنی 2020 کا استعمال ہوا ہے۔‘
واضح رہے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سال 2021 میں کرپشن میں اضافے کے بعد پاکستان دنیا میں 140 ویں نمبر پر آ گیا تھا جبکہ 2020 میں پاکستان کا نمبر 128 اور 2019 میں 124 تھا۔

جس وقت یہ رپورٹ آئی تھی اس وقت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 2020 میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان کا سکور31 تھا، جو اب 28 ہو گیا ہے۔
کرپشن پرسیپشن انڈیکس کا سکور کم ہونا کرپشن میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
وزارت قانون کے مطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جو ڈیٹا استعمال کرتی ہے اس پر رائے بھی اپنے ماہرین اور کاروباری افراد سے لیتی ہے، جبکہ عوام اور ان کے نمائندوں کی رائے شامل نہیں کی جاتی، جو کرپشن سے براہ راست متاثر یا مستفید ہو سکتے ہیں۔
’اس لیے یہ رپورٹ یک طرفہ ڈیٹا پر مبنی ہے جو پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے حقیقی عکاسی نہیں کرتی۔‘
وزارت قانون نے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ ’نیب کو 2019 میں 46 ہزار 289 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 1308 کی حتمی تصدیق ہوئی اور 141 ارب روپے ریکور کیے گیے۔‘
’2020 میں 24 ہزار 706 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 878 کی حتمی تصدیق ہوئی اور 323 ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔ 2021 میں 34 ہزار 813 شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے 628 کی حتمی تصدیق کے بعد 91 ارب روپے ریکور کیے گئے۔‘
خیال رہے کہ جس وقت یہ رپورٹ آئی تھی اس وقت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا ’قانون کے تحت نیب قانون میں ترمیم کرنا یا اسے ختم کرنا پارلیمان کا کام ہے۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اس حوالے سے ایوان میں ہونے والی بحث پر مسلم لیگ ن کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے سوال کیا کہ ’بتائیں کہ نیب کو کب ختم کیا جا رہا ہے؟ نیب کو ختم کیا جائے۔ نیب نے کوئی کرپشن ختم نہیں کی۔ چیئرمین اور نیب ملازمین نے کرپشن کی، اس کی تحقیقات کی جائیں۔‘
جواب میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ’بطور وزیر اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔ شاید بطور انسان میرے بھی نیب کے حوالے سے وہی جذبات ہوں جیسے سعدیہ عباسی کے ہیں۔‘
’اس ادارے کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور قتل عام دیکھا۔ قانون کے تحت نیب قانون میں ترمیم کرنا یا اسے ختم کرنا پارلیمان کا کام ہے۔‘

شیئر: