Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیہر:’بیوی کو عزت دیتے نہیں، داماد ببر شیر بن کر گھومتا ہے‘

شفاعت علی نے بتایا کہ بہت سے مرد اپنی ماؤں کے تسلط میں رہتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی ماں کو وہ عزت دینے پر راضی نہیں ہوتے (سکرین گریب)
سید شفاعت علی کو آپ نے ٹی وی سکرین پر پیروڈی اور ممکری کرتے تو دیکھا ہے لیکن آج کل وہ ٹی وی ڈرامے ’نیہر‘ میں بہت مختلف انداز میں نظر آ رہے ہیں جس نے ان کے مداحوں کو بھی چونکا دیا ہے۔
اس ڈرامے میں وہ ’مظہر‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں جسے اس قدر لالچی دکھایا گیا ہے کہ وہ جہیز کے لالچ میں شادی کرتا ہے اور پھر لڑکی کے سسرال سے بہانے بہانے سے پیسے مانگتا ہے اور ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر بات بات پر بیوی کو طلاق کی دھمکی دیتا ہے۔
سید شفاعت علی کے لیے نیگیٹو کردار کا یہ تجربہ کیسا رہا یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے ان سے بات چیت کی ہے۔
سید شفاعت علی نے بتایا کہ ’نیہر ڈرامے میں مظہر کا کریکٹر جب آفر ہوا تو شروع میں میں خود مطمئن نہیں تھا، مجھے شروع میں کردار کی اتنی انڈرسٹینڈنگ نہیں تھی۔ جب میں نے سکرپٹ پڑھا اور جب اپنے کردار کو دیکھنا شروع کیا تو میرے ذہن میں ایسے بہت سے کریکٹرز گھومنا شروع ہو گئے جو اصل زندگی میں موجود تھے جنہیں اگر میں نے دیکھا نہیں لیکن ان کے بارے میں سنا ضرور تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’نیگیٹو کردار کا انتخاب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے لگا کہ شاید ہمارے پاس سارے ہیرو ایک جیسے ہیں، ہر بندے کو ہیرو بننا ہے، مثبت کردار کرنا ہے لیکن معاشرے کے منفی کردار بھی ایک حقیقت ہیں۔‘
ڈرامے کی کہانی کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ لڑکی کے والدین کیوں لڑکی کے سسرال والوں کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں تو شفاعت علی نے بتایا کہ ’لڑکی کے والدین اس لیے دب کر رہتے ہیں کیونکہ ہم تو لڑکی کو پورا انسان سمجھتے ہی نہیں۔ اگر لڑکی گھر آ جائے گی تو معاشرہ کہے گا کہ بسنے والی نہیں تھی، ماں کی تربیت ہی ایسی تھی، چھوٹی بہنوں کے رشتے نہیں آئیں گے وغیرہ وغیرہ۔‘
ان کے بقول ’اسی لیے داماد ایک ببر شیر بن کر گھر میں گھوم رہا ہوتا ہے اور اس کو یہ لگتا ہے کہ اسے فیصلوں میں اختیار دینا چاہیے، اسے عزت بھی دینی چاہیے اگر نہیں ملے گی تو ظاہر ہے لڑکی کا گھر متاثر ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسی سوچ ہے جس کا سدباب کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ایسے کردار سامنے لانے چاہییں جو حقیقت کے بہت نزدیک ہیں۔‘
سید شفاعت علی سمجھتے ہیں کہ ’اگر ہم دکھائیں گے تو لوگوں کو یہ لگے گا کہ ہمیں یہ والا کردار نہیں بننا اور مجھے لگتا ہے کہ مظہر ایک ایسا کردار ہے کہ اگر کسی داماد کو یہ کل کو کہا جائے گا کہ یار تم تو پورے مظہر ہو تو وہ ایک بار سوچے گا ضرور کہ مجھے اس قسم کا داماد نہیں بننا۔‘
شفاعت علی نے بتایا کہ ایک بڑی تعداد مردوں کی ضرور ہے جو اپنی ماؤں کے تسلط میں رہتے ہیں لیکن اپنی اولاد کی ماں کو وہ عزت دینے پر راضی نہیں ہوتے۔ ’میں ایسی درجنوں خواتین کو جانتا ہوں جو ایسے مردوں کو صرف اس لیے بھگت رہی ہیں کیونکہ ان کے بچوں کے ساتھ نام جڑا ہوا ہے اور کئی ایسی خواتین بھی ہیں جو اپنے مردوں کو اس لیے چھوڑ چکی ہیں کیونکہ ان کا رویہ ان کے ساتھ نامناسب تھا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ عورت کو بات بات پر طلاق کی دھمکی کا ڈراوا کیوں دیا جاتا ہے، سید شفاعت علی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں مردوں کو نہ دوسری شادی میں کوئی قباحت ہوتی ہے اور نہ ان کو طلاق دیتے ہوئے کوئی دقت ہوتی ہے۔ معاشرہ یہ ان کا پیدائشی حق تسلیم کرتے ہوئے، بغیر لعن طعن کرتے ہوئے پوری اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہے کرتے پھریں۔‘

سید شفاعت علی نے کہا کہ ’نیگیٹو کردار اس لیے کیا کہ مجھے لگا ہر بندے کو ہیرو بننا ہے لیکن معاشرے کے منفی کردار بھی ایک حقیقت ہیں۔‘ (سکرین گریب)

انہوں نے کہا کہ ’دوسری طرف خواتین کو اگر طلاق کا ڈر ہو تو طلاق کے بعد معاشرہ پہلے تو انہیں قصوروار گردانتا ہے، ان کے چال چلن پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے کہ کچھ تو ہوگا کہ لڑکے نے اپنا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا۔ یہاں تک کہ کوئی طلاق یافتہ خاتون کو کرائے کا گھر بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ ایک المیہ ہے اس لیے طلاق کی دھمکی کام کرتی ہے۔‘
ڈرامے میں مظہر کو اپنی بیوی پر تدد کرتے بھی دکھایا گیا ہے، اس حوالے سے شفاعت علی نے بتایا کہ مرد کو یہ لگتا ہے کہ وہ زور یا طاقت کے ذریعے اپنی بات خواتین پر مسلط کر سکتا ہے اور معاشرہ انہیں اتنی گنجائش دیتا ہے۔ یہ رجحان صرف اس صورت میں کم ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ جس بھی بیانیے کی روح سے گھریلو تشدد کو  جسٹیفائے کر رہے ہیں وہ اپنی بنیاد میں غلط ہے۔‘

شیئر: