Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مجھے آئس کریم چاہیے‘ ریسکیو سروس میں غیر سنجیدہ کالز سے عملہ پریشان

سندھ کے مختلف شہروں مییں ایمرجنسی سروس متعارف کرائی گئی ہے۔ فوٹو: ریسکیو سروس 1122
صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں شہریوں کی بروقت مدد کے لیے ریسکیو سروس 1122 تو شروع کر دی گئی ہے لیکن فیک کالز کی وجہ سے عملے کو پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ریسکیو سروس کی ایک رضاکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایمرجنسی کی صورتحال میں بھی شہری غیر سنجیدہ کالز کرنے سے نہیں رکتے۔  
ایک دن کراچی میں غیر معمولی طور پر آندھی آئی اور تیز بارش کا سلسلہ شروع ہوا۔ شہر کے بیشتر علاقے تاریکی میں ڈوب گئے جبکہ دیواریں گرنے اور کرنٹ لگنے سے جانی نقصان بھی رپورٹ ہوئے۔
ایسی صورتحال میں ہیلپ لائن پر ایک کال آئی اور کالر نے کہا کہ ’مجھے آئس کریم چاہیے۔‘
رضاکار صبیحہ علی (فرضی نام)  نے جب کالر کو باور کروایا کہ یہ ریسکیو سروس ہے، تو اس پر کالر نے جواب دیا کہ ’اگر آئس کریم نہیں ہے تو آئی فون کا بتا دیں۔‘ 
صبیحہ علی کالر کو سمجھانے کی کوشش کرتی رہیں کہ ’اس وقت شہر میں ایمرجنسی کی صورتحال ہے اور مختلف مقامات پر حادثات رپورٹ ہو رہے ہیں اگر آپ کو ایمرجنسی کے حوالے سے کوئی مدد درکار ہوتو فرمائیے، جس پر کالر نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ وہ مذاق کر رہا تھا۔‘
ریسکیو ادارے کے مطابق ہنگامی صورتحال کے لیے بنائی گئی سروس پر کال کر کے شہری کبھی اپنے موبائل فون کی آواز چیک کرتے ہیں تو کوئی خاتون رضاکار سے غیر ضروری بات کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ بچوں کی کالز بھی بڑی تعداد میں موصول ہوتی ہیں۔  
ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میڈیکل سروسز عابد نوید نے بتایا کہ یومیہ دس ہزار سے زائد فون کالز موصول ہوتی ہیں جن میں نصف سے زائد کالز غیر متعلقہ ہوتی ہیں۔

ریسکیو عملے کو غیر سنجیدہ کالز کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

عابد نوید کا کہنا ہے کہ یہ سروس کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے اور شہریوں کو فوری مدد فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے لیکن رضاکاروں کو اپنی ذمہ داری نبھانے میں اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب شہری مذاق اور تفریح کے مقصد سے ایمرجنسی نمبر پر کال کرتے ہیں۔ 
’بارشوں کے پیش نظر پیدا ہونے والی صورتحال، آتشزدگی، سڑکوں پر ہونے والے حادثات، طبی مریضوں کی منتقلی، عمارتوں کے منہدم ہونے سمیت ڈوبنے و دیگر واقعات میں مدد دینے کی ذمہ داریاں سرانجام دینا اس ایمرجنسی سروس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔‘
عابد نوید نے کہا کہ ’ان کالز کی وجہ سے ہماری فون لائنز بلاوجہ مصروف رہتی ہیں جس سے ایمرجنسی صورتحال کا سامنا کرنے والوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ غیر ضروری کالرز کو ویسے تو خبردار کیا جاتا ہے لیکن اگر ان نمبروں سے یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر قانونی کارروائی کریں گے۔
’شہریوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سروس عوام کی آسانی کے لیے بنائی گئی ہے۔ اگر عوام تعاون نہیں کریں گے تو رضاکاروں کو جہاں کام کرنے میں مشکلات ہوں گی وہیں مصیبت میں پھنسے شہری کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘  
رضاکار صبیحہ علی نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی وہ ٹیلی مارکیٹنگ کی نوکری کر چکی ہیں اور خواتین کے لیے فرنٹ ڈیسک اور ہیلپ لائن پر کام کرنا آسان نہیں ہے۔

شہریوں کی بروقت مدد کے لیے ریسکیو سروس شروع کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

’لوگ آفیشل ایمرجنسی نمبر پر کال کرکے حراساں کرتے ہیں۔ کوئی دوستی کا کہتا ہے تو کوئی غیر ضروری گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو فون کال پر حراساں کرنے کی سزا کا قانون موجود ہے۔ لیکن کتنی شکایات درج کروائیں گے اور اپنی نوکری پر توجہ دیں گے یا پھر ان کالز کی شکایات میں وقت لگائیں گے۔‘
خیال رہے کہ ریسکیو 1122 کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں ایمرجنسی سروس شروع کی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں جان بچانے والی ایمبولینس سروس شروع کی گئی تھی جبکہ ایک ہفتہ قبل فائربریگیڈ اور مددگار پولیس کو بھی اس سروس سے جوڑا گیا ہے۔
ریسکیو سروس کے بعد سے کراچی کے باسی ایک فون کال پر ہنگامی صورتحال میں پولیس، فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کی سروس حاصل کرسکتے ہیں۔

شیئر: