Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہنزہ میں ’سیاحوں کو تنگ نہیں کریں گے لیکن اپنا احتجاج جاری رکھیں گے‘ 

ڈی سی آفس کے مطابق ’ٹریفک کو قرارقرم ہائی وے پر متبادل راستے فراہم کیا جارہا ہے
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ میں پانچ روز سے جاری مقامی افراد کا احتجاج شدت اختیار کر گیا اور ویلی اس وقت مکمل طور پر لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔  
پانچ روز سے جاری مقامی افراد کے احتجاج کے مظاہرین نے منگل کی رات ہنزہ ویلی آنے والے تمام راستوں کو بند کر دیا اور رات گئے تک دو سو سے زائد گاڑیاں ناصر آباد کےمقام پر پھنس چکی ہیں۔ 
مقامی افراد کی جانب سے پانچ روز سے ماربل کی لیز غیر مقامی کمپنی کو دینے کے تنازع پر احتجاج کیا جارہا ہے جس میں جزوی طور پر گاڑیوں کو داخلے کی اجازت دی جارہی تھی تاہم منگل کی شام سے مظاہرین نے ناصر آباد کے علاقے سے تمام راستے بند کرتے ہوئے ہنزہ ویلی کو لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔ 
راولپنڈی کے راشد محمود نے ہنزہ سے ٹیلی فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’دو روز  پہلے درجن بھر دوستوں کے ہمراہ  براستہ ناران ہم ہنزہ پہنچے تو اس وقت بھی احتجاج جاری تھا تاہم رات کو گاڑیاں گزرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں صورتحال کا اندازہ نہیں تھا کہ اتنی خراب ہو جائے گی پہلے رات 8 بجے سے 12 بجے تک گاڑیوں کو داخلے کی اجازت تھی تاہم کل رات سے کسی گاڑی کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں ہے اور ہم ناصر آباد کے علاقے میں آکر پھنس چکے ہیں۔‘  
راشد محمود کے مطابق اس وقت سینکڑوں گاڑیاں قرارقرم ہائی وے پر موجود ہیں اور علاقے میں انٹرنیٹ اور دستیاب نہیں جبکہ موبائل سگنلز کا بھی مسئلہ ہے۔ ’اس وقت سینکڑوں گاڑیاں سڑک پر موجود ہیں جن میں فیملیز، بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں۔‘ 

سیاحون کے مطابق مقامی افراد نے ان کو تنگ نہیں کیا بلکہ سہولیات دیتے رہے

لاہور کے ملک عمیر نامی سیاح اپنی فیملی کے ہمراہ ہنزہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’رات ہم نے یہاں مقامی افراد کے گھروں میں گزاری، مقامی افراد کی خوش اخلاقی ہے کہ انہوں نے سیاحوں کو تنگ نہیں کیا بلکہ ان کو سہولیات دیتے رہے۔ کسی فیملی نے بھی رات سڑک پر نہیں گزاری ، یہاں پر موجود مقامی افراد نے تمام فیملیز کو اپنے گھروں کو لے گئے، ہمیں رات کا کھانا بھی انہوں نے دیا اور صبح ناشتہ بھی کروایا لیکن احتجاج اس وقت بھی جاری ہے اور ہنزہ اس وقت مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’میں اپنے دو بچوں اور بیوی کے ہمراہ ایک دشوار گزار راستے سے نکلنے کی کوشش کی ۔ اپنی خاندان والی کی زندگیوں کا رسک لے کر ہم نے صبح سویرے سفر کیا لیکن وہ راستہ گاڑیوں پر سفر کے قابل نہیں ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستے خراب ہیں اس لیے وہاں سے نکلنا مناسب نہیں تھا لیکن بچوں کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے مقامی افراد کی مدد سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہوں لیکن اس راستے سے چھوٹی گاڑیوں اور بسوں کا آنا ناممکن ہے۔‘ 

مقامی افراد نے احتجاج کے طور پر راستے بند کر دیے ہیں

مقامی افراد احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ 

آصف خان ناصر آباد کے رہائشی ہیں اور مقامی افراد کے احتجاج میں شرکت ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’یہ معاملہ گذشتہ 18 برسوں سے چلا آرہا ہے۔ مقامی افراد کی ملکیت کی لیز پر کراچی کے کسی ٹھیکیدار کو ٹیمپرنگ کے بعد لیز دی گئی ہے اور مقامی افراد کو جزوی طور پر راہداری دے دی جاتی ہے تاہم اس وقت تین ہزار ٹن کا پتھر لے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے مقامی افراد نے احتجاج کے طور پر راستے بند کر دیے ہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’ہم تنگ آکر اب سڑکوں پر آگئے ہیں، مقامی انتظامیہ اس مسئلہ کو حل نہیں کر رہی۔ یہ 800 گھرانوں کی ملکیت ہے اور ان کی لیز میں ٹیمرنگ کر کے غیر مقامی ٹھیکیدار کو لیز دی گئی ہے۔ ہمارے اس احتجاج میں برزرگ اور خواتین بھی شریک ہیں۔‘  
آصف خان کے مطابق ’ ہم نے پانچ روز تک احتجاج کیا لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی اب ہم مجبور ہو کر راستے بند کر رہے ہیں۔ ہم بس اتنا کر سکتے ہیں کہ خواتین بچوں اور بزرگ سیاحوں کو اپنی سہولیات دے رہے ہیں ان کو اپنے گھروں میں پناہ دیں گے، سیاحوں کو ہم تنگ نہیں کررہے لیکن مسئلہ کا مستقل حل نکلنے تک ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔‘ 

خواتین بچوں اور بزرگ سیاحوں کو اپنی سہولیات دے رہے ہیں: مقامی افراد

سرکاری موقف کیا ہے؟  

اس حوالے سے ڈپتی کمشنر آفس ہنزہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر مذاکرات کیے جارہے ہیں اور جلد مسئلہ کا حل نکال لیا جائے گا۔ ڈپٹی کمشنر آفس نے معاملے کی تفصیل میں جانے سے گریز کیا ہے۔ 
ڈی سی آفس کے مطابق ’ٹریفک کو قرارقرم ہائی وے سے نگر کی جانب متبادل راستے فراہم کیا جارہا ہے اور ٹریفک پلان ترتیب دے دیا گیا ہے۔‘  
دوسری جانب گلگت بلتستان کے حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘احتجاج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوچکے ہیں اور ان کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں تاہم دو ماہ قبل بھی مطالبات تسلیم کرنے کے بعد عملدرآمد نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے احتجاج ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’آئندہ چند روز میں مقامی افراد کو ماربل لے جانے کے لیے محکمہ معدنیات سے راہداری کی اجازت مل جائے گی جبکہ اس سارے معاملے پر وزیراعلی کی جانب سے قائم کیے گئے کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ بھجوادی ہے۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد کی صورت میں تنازع مستقل طور پر حل ہو جائے گا۔‘ 

شیئر: