Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں: شہباز شریف

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’ہم اس ایوان کے تعاون سے عمران نیازی کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے یہ ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں۔
جمعرات کو ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ ’قومی اسمبلی میں میری تقریر کا خلاصہ یہی تھا کہ ایک جمہوری نظام آسانی اور موثر طریقے سے کام کرے۔‘
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کو سمجھے بغیر ہم دائرے میں سفر کرتے رہیں گے اور کسی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔‘
بدھ کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’ہم اس ایوان کے تعاون سے عمران نیازی کی فسطائیت کا مقابلہ کریں گے لیکن جھکیں گے نہیں۔
ہم اس چیلنج سے نکلیں گے، ہم لڑیں گے مریں گے مگر شکست نہیں مانیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’75 سال تک آئین کے ساتھ کھلواڑ ہوتا رہا۔ اگر اتحادی جماعتیں اپنی سیاست کو مقدم رکھتیں تو ریاست کا خدا حافظ تھا۔
’ہم جانتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ معیشت کو زندگی دلانا کوئی آسام کام نہیں اور مہنگائی عروج پر ہے لیکن ہم نے ریاست کو بچانے کے لیے یہ فیصلہ کیا۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ ادارے دن رات ایک لاڈلے کے لیے کام کرتے تھے اور ان کو لا کر بٹھایا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’جس طرح کی سپورٹ لاڈلے کو دی گئی پاکستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں دی گئی اور نہ آئندہ دی جائے گی لیکن اس کے باوجود معیشت کا جنازہ نکالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مارچ میں جب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے آئین شکنی کی تو عدلیہ نے اس کو نہیں بلایا۔
’این سی اے 190 ملین پاؤنڈ کی ریکوری کرتی ہے۔ کابینہ میں جب معاملہ آیا تو کابینہ سے بند لفافے پر فیصلہ لیا گیا اور اس لفافے میں یہ فیصلہ تھا کہ شہزاد اکبر جا کر این سی سے معاہدہ کر لیں گے اور یہ پیسے سپریم کورٹ میں جمع کرائیں گے۔ اس پر کسی نے نوٹس لیا؟‘

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ ادارے دن رات ایک لاڈلے کے لیے کام کرتے تھے اور ان کو لا کر بٹھایا گیا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے گزشتہ روز پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکمران اتحاد کی جانب سے عدالتی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کے لیے قرارداد متفقہ طور منظور کی گئی تھی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ ’آئین و قوانین کی منظوری اور ان میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔‘
’آئین، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے مابین اختیارات تقسیم کرتا ہے۔ ریاست کا کوئی بھی ستون ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔‘

شیئر: