Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بندوق کے بعد کتاب، سینکڑوں طالبان جنگجوؤں کی سکول کو واپسی

افغان حکومت کے ترجمان کے مطابق اکثر جنگجو سکول واپس جا رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے سینکڑوں جنگجوؤں نے تعلیم حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان میں سے اکثر نے اپنی مرضی سے یا پھر اپنے کمانڈر کی ہدایت پر تعلیمی اداروں میں واپس جانا شروع کر دیا ہے۔ 
گل آغا جلالی نامی طالبان جنگجو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سے پہلے ان کی راتیں بم نصب کرنے میں گزرتی تھیں تاکہ افغان یا غیرملکی فوجیوں کو نشانہ بنائیں۔
لیکن آج کل یہ 23 سالہ طالب دارالحکومت کابل میں انگریزی کا کورس کر رہا ہے اور ساتھ ہی کمپیوٹر سائنس کی کلاسیں بھی لے رہا ہے۔
گل آغا جلالی کا کہنا تھا کہ ’جب ہمارے ملک پر کافروں کا قبضہ تھا تو ہمیں بم، بارود اور بندوق کی ضرورت تھی لیکن اب تعلیم ضروری ہے۔‘
افغان اور غیرملکی فوجوں کے خلاف لڑنے کے بعد اب گل آغا جلالی وزارت برائے ٹرانسپورٹ اور سول ایوی ایشن میں کام کرتے ہیں۔
اپنی زندگیوں کے تقریباً 20 سال حالت جنگ میں گزارنے کے بعد طالبان جنگجوؤں کو اب یہ موقع ملا ہے کہ وہ ہتھیار کی جگہ کتاب بھی اٹھا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ اکثر طالبان جنگجو مدرسوں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں جہاں تعلیم اسلام اور قرآن پڑھنے تک محدود ہوتی ہے۔
اکثر قدامت پسند طالبان رہنما اب بھی جدید تعلیم کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں سوائے انجینیئرنگ اور میڈیکل جیسے مضامین کے جو عملی میدان میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
تاہم گل آغا جلالی کے خیال میں ’دنیا بدل رہی ہے اور ہمیں ٹیکنالوجی اور ڈویلپمنٹ کی ضرورت ہے۔‘ 
افغان حکومت کے ترجمان بلال کریمی کا کہنا ہے کہ گل آغا جلالی جیسے جنگجوؤں کی سکول جانے کی خواہش سے ظاہر ہے کہ افغان عوام کس حد تک تعلیم حاصل کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔

چند افغان وزارتوں نے طالبان کے لیے کمپیوٹر کی تعلیم کا اہتمام کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ترجمان نے بتایا کہ ’اکثر مجاہدین جو تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے اب وہ  تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں اور اپنے پسندیدہ مضامین پڑھ رہے ہیں۔‘
لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سیکنڈری سکول کی لڑکیوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک مسئلہ بن کر رہ گیا ہے جس کے حل کے لیے طالبان رہنماؤں نے کوئی عندیہ نہیں دیا۔
گل آغا جلالی کی طرح 25 سالہ امان اللہ مبارز کی طالبان تحریک میں شمولیت کے بعد بھی تعلیم کی خواہش برقرار رہی۔
انہوں نے بتایا کہ 18 سال کی عمر میں وہ تحریک اسلامی طالبان میں شامل ہوئے تھے لیکن جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔
امان اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے انڈیا کی ایک یونیورسٹی میں بھی داخلہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن انگلش کے ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔
امان اللہ اب کابل مسلم انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں تقریباً تین ہزار طالب علموں میں سے نصف خواتین طلبا کے علاوہ 300 کی تعداد میں طالبان جنگجو ہیں۔
کابل مسلم انسٹی ٹیوٹ کے اہلکار نے بتایا کہ طالبان جنگجو جب یہاں کلاس لینے آتے ہیں تو وہ اپنے ہتھیار جمع کروا دیتے ہیں اور اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی زور زبردستی نہیں کرتے۔

شیئر: