Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کا ایک سال: افغانستان میں غربت اور بھوک کے ڈیرے ’خشک روٹی بھی میسر نہیں‘

صوبہ ہلمند کے علاقے ہلمند میں ہیضے کی وبا پھیل گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
جنوبی افغانستان میں ایک تباہ حال ہسپتال کے وارڈ میں موجود مریض انسانی بحران کی صرف ایک علامت ہیں جس نے ایک سال قبل طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے جنگ زدہ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق غربت اور بھوک کو افغانستان کے جنوبی اضلاع میں سب سے زیادہ شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔
خشک سالی اور مالی مشکلات کے باعث اناج نہ خرید سکنے والے ملک پر عالمی منڈی میں گندم نہ ملنے کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں جو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مہنگی ہو چکی ہے۔ 
گزشتہ ماہ صوبہ ہلمند کے علاقے میں ہیضے کی وبا پھوٹنے کے بعد موسیٰ قلعہ ڈسٹرکٹ ہسپتال ہیضے کے مشتبہ مریضوں کے علاوہ دیگر تمام امراض کے شکار افراد کے لیے بند کیا گیا تھا۔
ہسپتال بہت کم وقت میں ہیضے کے مریضوں سے بھر گیا لیکن پھر ان کے لیے سرنج اور انجیکشن کم پڑ گئے۔
ہلمند کے ضلعی ہسپتال میں ہیضے کے ٹیسٹ کے لیے سہولیات ناکافی ہیں اور چند دن میں 550 مریض داخل کیے گئے جو علاقے میں پینے کا صاف پانی نہ ملنے اور صفائی نہ ہونے کے باعث بیمار ہوئے۔
ہسپتال کے سربراہ احسان اللہ روڈی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ بہت ہی مشکل وقت ہے۔‘
ہیضے کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد زیادہ کام کے باعث ہسپتال کا عملہ صرف پانچ گھنٹے سو پاتا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دنیا کا بدترین انسانی بحران ہے۔
افغنستان میں غربت اور بھوک
ہلمند کے صوبائی دارالحکومت لشکرگاہ میں اپنے چھ ماہ کے پوتے کے ساتھ ہسپتال کے بیڈ پر بیٹھی ایک خاتون نے بتایا کہ ’جب سے امارت (طالبان) اقتدار میں آئی ہے، ہمیں کھانا پکانے کا تیل بھی نہیں مل رہا ہے۔‘
خاتون کا کہنا تھا کہ غریب لوگ کچلے جا رہے ہیں۔
خاتون کے پوتے کو ہسپتال میں پانچویں بار داخل کیا گیا ہے۔ ہلمند کے اس ہسپتال کو افغانستان کی وزارت صحت اور ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) مشترکہ طور پر چلا رہے ہیں۔

عالمی معاشی بحران نے افغانستان میں غذائی بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس ہسپتال کے ہر بیڈ کو دو ناتواں اور کمزور بچوں کو رکھا جا رہا ہے جو غذائی قلت کا شکار ہیں اور ان کی طاقت کو ڈرپس کے ذریعے بحال کیا جا رہا ہے۔
ایک اور بیمار بچے کی ماں بریشنا نے بتایا کہ ’ہمیں خشک روٹی بھی میسر نہیں۔‘
بریشنا کے اندازے کے مطابق اُن کی عمر 15 سے 20 برس کے درمیان ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں تین چار دن کچھ کھانے کو نہیں مل پاتا۔‘
اسسٹنٹ نرسنگ سپروائزر حمیرا نوروزی نے بتایا کہ ان کو آرام کرنے کا وقت نہیں مل پاتا۔
’ہمارے پاس بہت سے ایسے مریض آتے ہیں جن کی حالت تشویشناک ہوتی ہے کیونکہ والدین کے پاس وسائل نہیں کہ بچوں کو جلد ہسپتال پہنچانے کے لیے سفر کر سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اموات کی درست تعداد معلوم نہیں ہو پاتی کیونکہ بہت سے مریض ہسپتال نہیں آ پاتے۔

شیئر: