Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں لڑکیوں کے خفیہ سکول: ’خطرہ مول نہ لیا ہوتا تو ان پڑھ رہ جاتیں‘

افغانستان کے مختلف علاقوں میں لڑکیوں کے خفیہ سکول ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نفیسہ نے اپنے گھر میں ایک ایسی جگہ ڈھونڈی ہے جہاں انہوں نے اپنے طالب بھائی کی نظروں سے کتابیں چھپا کر رکھی ہیں۔۔۔ یہ جگہ ان کا کچن ہے جہاں افغان مرد کم ہی جاتے ہیں۔
گزشتہ برس قبل جب طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کیا تو نفیسہ کی طرح ہزاروں افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہوئیں۔
افغانستان کے ایک دور افتادہ گاؤں میں نفیسہ ایک خفیہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’لڑکوں کا کچن میں کام نہیں ہوتا اس لیے میں اپنی کتابیں وہاں رکھتی ہوں۔‘
’اگر میرے بھائی کو معلوم ہوا تو وہ میری پٹائی کر دیں گے۔‘
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند ہیں۔ خواتین پر محرم کے بغیر سفر کرنے پر پابندی ہے۔ ان کو عوامی مقامات پر روایتی نیلے رنگ کا برقعہ پہننے کا کہا گیا ہے۔
لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لیے ملک میں ایسے گھر موجود ہیں جن میں خفیہ سکول کھولے گئے ہیں۔

’ہم آزادی چاہتے ہیں‘

دہائیوں کی کشیدگی نے افغانستان کے تعلیمی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے نفیسہ 20 سال کی عمر میں سیکنڈری سکول کے مضامین پڑھ رہی ہیں۔
نفیسہ کی تعلیم کے لیے ان تمام تر کوششوں کا صرف والدہ اور بہن ہی کو علم ہے۔

طالبان کے کنٹرول کے بعد سے اب تک لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نفیسہ کے بھائی نے طالبان کی جانب سے سابق حکومت اور امریکی فوج کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ فتح کے بعد وہ اس سخت گیر نظریے کے ساتھ گھر واپس آئے ہیں کہ عورت کی جگہ گھر میں ہے۔
انہوں نے اپنی بہن کو مدرسے سے قرآن پڑھنے کی اجازت دی ہے تاہم دوپہر کے وقت وہ خفیہ سکول جاتی ہیں۔
نفیسہ نے کہا ہے کہ ’ہم نے یہ خطرہ قبول کر لیا ہے۔ اگر نہ کیا ہوتا تو ان پڑھ رہ جاتیں۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ اپنے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں آزادی چاہیے تاکہ مستقبل بنا سکیں‘
سکول پہنچنے کے لیے وہ مختلف راستے اختیار کرتی ہیں تاکہ کسی کی نظر میں نہ آ سکے۔

’اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا کوئی جواز نہیں‘

علما کا کہنا ہے کہ اسلام میں لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پر پابندی کا کوئی جواز نہیں۔
طالبان کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں کہ سکول کھولے جائیں گے۔
طالبان تحریک میں ایک ایسا دھڑا موجود ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کا مخالف ہے۔ تاہم حکومت میں موجود طالبان اس کو ایک ’تکنیکی مسئلہ‘ قرار دیتے ہیں کہ نصاب ترتیب دے کر سکول کھول دیے جائیں گے۔

کابل میں بھی ایسے خفیہ سکول ہیں جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان میں لڑکیاں پرائمری سکول اور یونیورسٹی جا سکتی ہیں تاہم سیکنڈری سکول تاحال بند ہیں۔
پرائمری سکول کی لڑکیاں سکول جاتی ہیں، خواتین یونیورسٹی بھی جاتی ہیں۔
کابل میں بھی ایسے خفیہ سکول ہیں جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
40 برس کی تمکین جو طالبان کے پہلے دور میں تعلیم سے محروم تھیں، چاہتی ہیں کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کریں اور ان کا مستقبل روشن ہو۔ وہ اپنے گھر میں لڑکیوں کو انگلش اور سائنس کی تعلیم دیتی ہیں۔
’میں نہیں چاہتی کہ یہ لڑکیاں میری طرح ہوں۔ ان کا بہتر مستقبل ہونا چاہیے۔‘
غریب لڑکیوں کو کتابیں فراہم کرنے کے لیے انہوں نے اپنی گائے فروخت کی تھی۔
17 سالہ ملیحہ کو یقین ہے کہ ایک دن آئے گا جب طالبان اقتدار میں نہیں ہوں گے۔

طالبان تحریک میں ایک ایسا دھڑا موجود ہے جو لڑکیوں کی تعلیم کا مخالف ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’طالبان سے خوفزدہ نہیں‘

38 برس کی لیلٰی ہفتے میں دو دن اپنے ہی گھر میں سکول چلاتی ہیں جہاں تقریباً 12 لڑکیاں پڑھنے آتی ہیں۔
سیکنڈری سکول دوبارہ بند ہونے کے بعد انہوں نے علاقے کی بچیوں کو پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک طالبہ نے کہا کہ وہ طالبان سے خوفزدہ نہیں۔ ’اگر وہ کچھ کہتے ہیں تو ہم مقابلہ کریں گے اور پڑھائی جاری رکھیں گے۔‘

شیئر: