مکہ میں ا ن سے زیادہ لاڈلا کوئی نہ تھا، ساری آسائشیں ان کو میسر تھیں ، انہوں نے یہ ساری نعمتیں اللہ اور رسول کیلئے قربان کر دیں
****عبدالمالک مجاہد۔ ریاض****
احد کا میدان مدینہ طیبہ سے زیادہ دور نہیں۔ 3 ہجری کو ہونیوالے اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 700تھی جبکہ مشرکین کی تعداد3 ہزار ۔ معرکہ سے پہلے جب جھنڈوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو اللہ کے رسول نے مہاجرین کا عَلَم سیدنا مصعب بن عمیرؓ کو مرحمت فرمایا جن کا تعلق قریش کے عبدری خاندان سے تھا۔ مدینہ طیبہ میں اسلام کی روشنی پھیلانے میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ کا بہت بڑاکردار تھا۔ معرکہ کے اختتام پر شہداء کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا۔ انکے ناک،کان اور دیگر اعضاء کاٹ دیے گئے۔آنکھیں نکال دی گئیں۔ پیٹ پھاڑ کر شہداء کے کلیجے نکالے گئے ان شہداء میں سیدنا مصعب بن عمیر ؓ بھی شامل تھے۔شکل وصورت کائنات کے امام سے ملتی جلتی تھی اسلئے انکی شہادت کے بعد ابن قمئہ نے اعلان کیا تھاکہ میں نے (معاذ اللہ) اللہ کے رسول کو قتل کردیا ہے۔صحابہ کرامؓ میں ان کا بڑا اعلیٰ مقام تھا۔
قارئین کرام! آیئے ذرا قدرے تفصیل سے اسلام کے اس عظیم سپوت کی مبارک اور روشن زندگی پر نظر ڈالتے ہیں: سیدنا مصعب بن عمیرؓ کا تعلق قریش سے تھا۔ ان کے جد امجد کا نام عبد الدار تھا۔ان کی اولاد انہی کی نسبت سے عبدری کہلاتی تھی۔ سردار عبدالدار کے ایک بیٹے کا نام سردار عبدمناف تھا جو سیدولد آدم کے پردادا سردار ہاشم کے والد تھے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کے کتنے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ان کی اہلیہ محترمہ کا نام حنہ بنت جحش تھا اور 2بیٹوں کے باپ تھے۔ ایک کانام محمد اور دوسرے کا نام عبد اللہ تھا۔بڑے بیٹے محمد کے نام پر ابو محمد کنیت کرتے تھے۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے والد وفات پاچکے تھے۔اپنی والدہ خُناس بنت مالک کے پاس مقیم تھے جو نہایت امیر کبیر عورت تھی۔سیدنا مصعب نہایت خوبصورت تھے۔ امیروالدین کے بیٹے تھے۔ نئی نئی پوشاکیں زیب تن کرتے تھے۔ ان کی گفتگو میں اس قدر مٹھاس اور چاشنی تھی کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے ۔ اتنے ذہین و فطین اور باتیں اتنی مزیدار کرتے کہ مجلس میں جان ڈال دیتے ۔ ان کے ساتھی ان کی آمد کا انتظار کرتے اور جب وہ مجلس میں بیٹھ جاتے تو سب خاموش ہوکر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے۔
ان کی باتیں سنتے اور سر دھنتے۔ان کے دلائل بڑے وزنی اور زبردست ہوتے۔گفتگو میں کوئی ان سے آگے نہیں نکل سکتا تھا۔وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔ جب کوئی عزم و ارادہ کر لیتے تو پھر کوئی اسے تبدیل نہیں کر سکتاتھا۔ وہ مکہ میں کسی سے نہیں ڈرتے تھے تاہم ایک شخصیت ضرورایسی تھی جس سے وہ خوب ڈرتے تھے۔ انکے سامنے اس کی گھگی بندھ جاتی اور یہ ان کی والدہ تھی۔ آج وہ اپنی والدہ ،قریبی رشتہ داروں اور قوم کے اشراف کے سامنے کھڑے تھے۔ انکی والدہ نے تھپڑ کھینچا اور قریب تھا کہ اپنے بیٹے کو دے مارتی مگراشرافِ قریش میں سے ایک نے اسے منع کیا : ہم ابھی اس کو سمجھا لیتے ہیں۔ یہ سمجھ جائے گا،تم اتنا زیادہ غصہ نہ کرو۔ یہ نوجوان ان سے مرعوب ہوئے بغیر ان کو نہایت دلنشیں انداز میں قرآن حکیم کی آیات سنا نے لگا۔ والدہ خناس بنت مالک نے اس کو خوب سمجھایا اور ڈرایا بھی‘بالآخر لالچ بھی دیا مگر یہ کوئی بات سننے کیلئے تیار ہی نہیںہوا۔ مورخین کے مطابق یہ نوجوان مصعب بن عمیر مکہ مکرمہ کا باسی تھے۔یہ سب سے مہنگا اور اعلیٰ عطر استعمال کرنیوالے شخص تھے۔انہیں اسلام کا سب سے پہلا سفیر اور مبلغ بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اگر آپ سیرتِ پاک کا بغور مطالعہ کریں تو اللہ کے رسول کی بے شمار خوبیوں میں ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ آپ اپنے ساتھیوں سے انکی استعداد اور صلاحیت کے مطابق کام لیتے تھے۔ دیگر بہت سار ے نوجوانوں کی طرح نا مصعب بن عمی نے بھی محمد( )،الامین، الصادق کے بارے میں سنا کہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انکو پوری کائنات کیلئے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ صفا پہاڑی پرواقع دارِ ارقم اس دعوت کا مرکز ہے۔ لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں۔ تزکیہ نفس ہوتا ہے ، قرآن سیکھا اور سکھایا جاتا ہے اور نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔
صحابہ کرام قریش کی نگاہوں سے بچ بچا کر اس دعوت کو آگے پھیلا رہے ہیں۔مکہ مکرمہ اس زمانے میں کوئی بہت بڑا شہر نہیںتھا ۔وہاں کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کا مخفی رہنا محال تھا۔ قریشِ مکہ بطور خاص مسلمانوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ ایک دن عثمان بن طلحہ عبدری نے اپنی آنکھوں سے مصعب کودارِ ارقم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا اور پھر دوسرے دن دیکھا کہ محمد جیسی نماز پڑھ رہا ہے۔عثمان نے جاکر ساری بات ان کی والدہ اور خاندان والوں کو بتا دی۔ بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے بھی ام ِمصعب تک ایسی خبریں تسلسل سے پہنچ رہی تھیں۔ اس نے اپنے لخت جگر کورسیوں سے باندھ دیا۔ خوب مارا،سارے طریقے آزمائے مگر ان کے ارادے کو نہیں بدل سکی۔ ادھر مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر ر ہے تھے۔ سیدنامصعبؓ بھی اپنی والدہ کو جُل دے کر اسی قافلے میں شامل ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد واپس مکہ آگئے۔ ان پرعرصۂ حیات تنگ کردیا گیا تو دوبارہ حبشہ چلے گئے اور پھر ایک مختصر سی مدت کے بعد واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ اب بھی ماں نے اپنی سختی برقرار رکھی اوربیٹے کو کوئی بھی سہولت دینے سے انکا رکر دیا۔ایک دن صحابہ کرام اللہ کے رسول کے گرد بیٹھے تھے کہ سیدنامصعبؓ آگئے۔
آج انکی پوشاک ٹاٹ کی تھی ٗ ستر بمشکل چھپا ہوا تھا۔ کہاں وہ خوش لباس اور مہنگا عطر استعمال کرنیوالا مصعب اور کہاں یہ حالتِ زار، صحابہ کرام کی آہیں نکل گئیں ۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اللہ کے رسول نے اپنے ساتھی کی طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا: ’’میں نے مصعب کو اسلام لانے سے پہلے بھی دیکھا ہے،پورے مکہ میں اس سے زیادہ والدین کا لاڈلا کوئی نہ تھا۔ ساری سہولتیں اور آسائشیں اس کو میسر تھیں مگر اس نے یہ ساری نعمتیں اللہ اور اس کے رسول کیلئے قربان کر دی ہیں۔‘‘ ماں نے آخری حربے کے طور پربیٹے کو قید کرنے کا پروگرام بنایا۔ سیدنا مصعبؓ نے اپنی والدہ سے صاف لفظوں میں کہہ دیا: جس کسی نے مجھے رسیوں سے باندھنے میں تمہاری مدد کی، میں اسے قتل کر دوں گا۔ والدہ کو اپنے بیٹے کے عزم اور ارادے کا خوب اندازہ تھا چنانچہ اس نے روتے ہوئے بیٹے کا راستہ چھوڑ دیا۔ بیٹے نے گھر پر الوداعی نظر ڈالی اور پھر ماں کے راستے میں کھڑا ہو گیا: ’’پیاری اماں! میں تمہارا ہمدرد اور خیر خواہ ہوں،بس ایک مرتبہ اپنی زبان سے لا الٰہ لا اللہ محمدرسول اللہ کی شہادت دے دو ۔ ‘‘ ماں نے غضب ناک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہا :ستاروں کی قسم! جب تک میری عقل اور ہوش وحواس کام کریں گے میں تمہارے دین میں کبھی داخل نہیں ہوں گی۔ بیٹے کے دل پرماں کی یہ گفتگو سننے کے بعد کیا گزری ہو گی؟ وہ پریشان حال اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کی قسمت جگمگا اٹھی۔
اللہ کے رسولنے اپنے اس پیارے ساتھی کو ایک ایسی ذمہ داری سونپی جو اس سے قبل کسی کے نصیب میں نہ آئی تھی۔ مدینہ منورہ کے کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت اور اسلام کی دعوت کو مزید وسعت دینے کیلئے ایک سفیر،معلم اور مرشد کی ضرورت تھی۔ اس منصب کیلئے سیدنا مصعب بن عمیرؓ کا انتخاب کیا گیا۔ سیدنا مصعب بن عمیر ؓ نے مدینہ منورہ میں سیدنا اسعد بن زرارہؓ کے گھرمیں قیام فرمایا اور دونوں نے مل کر اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ سیدنا مصعبؓ نہایت خوش شکل ٗ عقل مند اور بہترین گفتگو کرنے والے داعی تھے۔ انہوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق سے بہت سارے لوگوں کو اسلام میں داخل کر لیا۔ ایک دن حضرت اسعد بن زرارہؓ کے ساتھ مل کر بنو عبدالاشہل کے محلے میں تشریف لائے۔ وہاں ایک باغ کے اندر مرق نامی کنویں پر بیٹھ گئے۔ اس وقت تک اس قوم کے2 بڑے سردار سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ سعد نے اسید سے کہا: ’’ دیکھواُسید! اسعد بن زرارہ میری خالہ کا بیٹا ہے اور میں خود اس سے الجھنامناسب نہیں سمجھتا۔یہ لوگ ہمارے قبیلے کے کمزور لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ذرا جا کر ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرو۔‘‘ اسیدغصے کے عالم میں اس باغ میں پہنچا اور کہنے لگا:تم یہاں کس لئے آئے ہو؟ ہمارے کمزوروں کو بے وقوف بنا رہے ہو۔
یاد رکھو! اگر تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔یہ کہا اور اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ اس قسم کی سخت گفتگو کے بعد سیدنا مصعبؓ نے مسکراتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا: آپ ہم سے ناحق ناراض ہو رہے ہیں۔ ذرا بیٹھ جائیں، ہماری بات سن لیں، اگر پسند آجائے تو قبول کر لیں، پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔ ہم دوسرے محلے میں چلے جائیں گے۔ اسید نے کہا : یہ تم نے انصاف کی بات کہی۔ وہ بیٹھ گئے۔ سیدنا مصعب نے قرآنِ کریم کی تلاوت کی اورپھر ان آیات کی تشریح شروع کی۔ادھر اسید اور اس کے ساتھیوں کے ذہنوں میں تبدیلی آنے لگی۔ کتنی اچھی باتیں ہیں اورکتنا پیارا کلام ہے یہ! وہ گویا ہوئے۔ چند ہی منٹوں میں سارا منظر تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کی درشت کلامی اب محبت بھری باتوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔اب ان کا سوال یہ تھا: اگر کوئی اسلام قبول کرنا چاہے تو اس کیلئے آپ کی شرائط کیا ہیں؟ ’’ بس غسل کریں ٗ کپڑے تبدیل کریں اور"کلمۂ شہادت" کی گواہی دے دیں‘‘۔ پھر سیدنا اسیدؓ خوداسلام کے داعی بن گئے اور اسلام کی یہ روشنی سعد بن معاذؓ تک بھی پہنچ گئی۔ انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اسی شام مدینہ کے ایک بہترین مفکر اور اوس کے سردار سعد بن عبادہ بھی اسلام میں داخل ہو گئے۔ اب پورے مدینے میں ایک ہی بات گشت کر رہی ہے: ’’اگر ہمارے سمجھدار ، ذہین سرداروں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو اسے قبول کرنے میں ہمارے لئے کیا رکاوٹ ہے؟ ‘‘ چنانچہ اسی دن شام تک بہت سارے لوگ مسلمان ہو چکے تھے۔
اسلام کے اس پہلے سفیر نے اپنے اخلاص ٗ حسن اخلا ق اور انتھک جدوجہد سے بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔ اگلے حج سے پہلے وہ مکہ مکرمہ پہنچے اور آپ کو پوری رپورٹ پیش کی۔ قبائل کے حالات نیز مدینہ منورہ کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال سے آپ کو آگاہ کیا۔ اسی سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی اور اللہ کے رسول کی ہجرت کیلئے روانگی کی راہ ہموار ہو ئی۔ ہجرت کے بعد غزوۂ بدر ہوا جس میں مشرکینِ مکہ کو شکست فاش ہوئی۔ اسلامی ریاست مضبوط ہو گئی۔ بدر میں جھنڈاحضرت مصعب بن عمیرؓ ہی کے ہاتھ میں تھا۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ مکہ والے ایک اور لشکرِ جرار لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے۔احد کے میدان میں آمنا سامنا ہوا۔ اللہ کے رسول نے اس موقع پر مہاجرین اور انصار کو جھنڈے عطافرمائے۔ ان خوش قسمت لوگوںمیں سیدنا مصعب بن عمیر ؓ بھی شامل تھے۔ جھنڈے کا ملنا ایک بڑی سعادت سمجھی جاتی تھی اور اس کی حفاظت کرنااس سے بھی بڑی ذمہ داری تھی۔سیدنا مصعب بن عمیرؓ اس ذمہ داری کو خوب سمجھتے تھے چنانچہ احد کے دن آپؓ نے اس ذمہ داری کا حق ادا کر دیا۔ مورخین نے اس دن سیدنا مصعبؓ کا کردار کچھ یوں بیان کیا ہے : احد کی جنگ شروع ہونے لگی تو اللہ کے رسول نے اپنے ساتھیوں سے سوال کیا: آج مشرکین کا جھنڈاکس کے پاس ہے؟ انہوں نے بتایا کہ بنو عبد الدار اس جھنڈے کو تھام کر رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہم اپنا جھنڈا بھی بنو عبد الدار ہی کے ایک نوجوان کے سپرد کریں گے ۔ آپ نے فرمایا: مصعب بن عمیرؓ کو میرے پاس بلاؤ۔
جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے لشکرِ اسلام کا جھنڈا ان کے سپرد کر دیا۔ جنگ کے دوران یہ جھنڈا حضرت مصعب بن عمیرؓ نے سنبھالا اور پھر اس کا حق ادا کر دیا۔انہوں نے جھنڈا اٹھانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول کے دفاع کا فریضہ بھی انجام دیا۔ جب ابی بن خلف نے آپ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تو سیدنا مصعب ؓنے ابی کے چہرے پر زور دار ضرب لگائی۔ رسول اللہ نے اس کے خود اور زرہ کے درمیان تھوڑی سی خالی جگہ دیکھی تو اسی جگہ کا نشانہ لے کر اس کو ضرب لگائی۔ وہ منہ کے بل گرااور بیل کی طرح ڈکارنے لگا۔ مسلمان جب تتر بتر ہوگئے تب بھی حضرت مصعبؓ ثابت قدم رہے۔ ابن قمئہ لیثی آگے بڑھا ۔ چونکہ مصعب کی شکل و شباہت اللہ کے رسول سے ملتی جلتی تھی اس لئے اس نے یہ سمجھا کہ یہ محمد()ہیں اور موقع غنیمت جانتے ہوئے حضرت مصعبؓ کے داہنے ہاتھ پر زوردار وار کیا۔ہاتھ کٹ گیا تو آپؓ نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا۔پھر اس نے بائیں ہاتھ پر تلوار کا وار کیا۔ بایاں بازو بھی کٹ گیا، اس وقت آپؓ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے: ]وَمَامُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ،أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أَعْقَابِکُمْ[۔ ’’ محمد() صرف اللہ کے رسول ہی تو ہیں، آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں،اگر وہ فوت ہو جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں پر (دین سے) پھر جاؤ گے۔ ‘‘ (آل عمران 144)۔ اب سیدنا مصعبؓ نے کٹے ہوئے بازوؤں کے بقایا حصو ں کو سہارا دے کر جھنڈا اپنے سینے سے لگا لیا۔
اب کی بار ابن قمئہ لیثی نے نیزے سے حملہ کیا ۔ آپؓ کی زبان پر مسلسل قرآن پاک کی آیت کریمہ کی تلاوت جاری تھی۔نیزے کی اَنی آپؓکے سینے سے پار ہو گئی۔ آپؓ زمین پر گر گئے اور اس کے ساتھ ہی شہید ہو گئے۔ شہادت کے وقت عمرِ مبارک 40 سال تھی۔ جھنڈا زمین پر گرا تو سیدنا علیؓ نے آگے بڑھ کر جھنڈا سنبھال لیا۔ معرکہ ختم ہوا۔ اللہ کے رسول دیگر صحابہ کرام کیساتھ شہدا ء کو الوداع کر رہے تھے۔ ان صحابہ میں سیدنا مصعب بن عمیرؓ بھی تھے۔سیدنا خباب بن ارت نے آنسوئوں کی برسات میں انہیں یوں نذرانۂ عقیدت پیش کیا: ’’ہم لوگوں نے محض رضائے الٰہی کی خاطر اللہ کے رسولکے ساتھ ہجرت کی۔ اس کا اجر و ثواب اور بدلہ یقینا اللہ تعالیٰ سے ملے گا۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ہجرت کا بدلہ دنیا میں بھی پایا۔ کچھ ایسے تھے جن کو کوئی مادی فائدہ دنیا میں حاصل نہ ہواجن میں مصعب بن عمیرؓ بھی شامل تھے۔ جب ان کو دفن کرنے لگے تو کفن میسر نہ تھا، ایک چھوٹی سی چادر میسر آئی جس کو سر پر ڈالتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور پاؤں پر سرکاتے تو سر ننگا رہ جاتا۔‘‘ اُن کی شہادت کی رؤف و رحیم نبی کو خبر دی گئی۔ آپ تشریف لائے ،اپنے پیارے ساتھی کی نعش کے قریب کھڑے ہوئے۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آپ فرما رہے تھے : ’’مؤمنوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو سچا کر دکھایا۔ مصعب! میں نے تمہیں مکہ میں دیکھا تھا۔ تم سے زیادہ نفیس لباس اور تم سے زیادہ خوبصورت بال کسی کے نہیں تھے۔ اب ایک یہ وقت ہے کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں،تم بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ایک معمولی چادر میں لپٹے ہوئے ہو۔‘‘ پھر آپنے تمام شہداء کی طرف ایک نظر ڈالی اور فرمایا: ’’اللہ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم قیامت والے دن شہداء میں اٹھائے جائو گے۔‘‘ پھر آپنے صحابہ کو حکم دیا:مصعب کے سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور قدمو ں کو اذخر گھاس سے ڈھانپ دو (اور پھر قبر میں دفن کر دو)۔‘‘ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔