Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر ’نئی صف بندی‘، کون کدھر کھڑا ہے؟

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ اختلافات کے خبروں کی تردید کی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ایک مرتبہ پھر اندرونی تنازعات کی زد میں ہے۔
نیا تنازع اس وقت شروع ہوا جب سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے ایک نیوز شو میں تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’نواز شریف اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سے سخت نالاں ہیں۔‘
انہوں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی جب وہ خود لندن میں میاں نواز شریف سے ایک طویل ملاقات کر کے آئے ہیں۔
ان کے اس بیان کے بعد سیاسی بھونچال آگیا تاہم کچھ ہی دیر بعد سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ان خبروں کی سختی سے تردید کی اور شہباز شریف حکومت کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اور ان کی ٹیم ملک کو اس خراب معاشی صورت حال سے نکالے گی جس میں عمران خان چھوڑ کر گئے تھے۔
نواز شریف کی طرف سے ایک شدید ردعمل تو آگیا لیکن سیاسی تجزیہ کار اب اس بات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کو اس وقت اندرونی چیلنجز کا ضرور سامنا ہے۔
اگر گذشتہ کچھ عرصے میں دیے جانے والے بیانات کا مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ مریم نواز سمیت ایک لیگی دھڑا ایسا ہے جس نے اپنی ہی حکومت پر کھل کر تنقید کی ہے اور بعض معاشی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
اس ممکنہ دھڑے میں شامل لوگوں کا اگر نام لیں تو اس میں سردست خود نواز شریف، اسحاق ڈار، مریم نواز، طلال چوہدری، عابد شیر علی اور میاں جاوید لطیف کے نام سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جنہوں نے کھل کر یا آف دی ریکارڈ موجودہ حکومت کی معاشی سمت پر تنقید کی ہے۔
عابد شیر علی نے حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کی دھمکی بھی ایک پریس کانفرنس میں دے ڈالی۔

سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’اس وقت اصل مسئلہ مفتاح اسماعیل کا بنا ہوا ہے‘ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)

اگر دوسرے دھڑے کی بات کریں تو اس میں وزیراعظم شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور خواجہ آصف کے نام سامنے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی جو ایک عرصہ نواز شریف کے خیالات کے حامی افراد میں شمار ہوتے تھے اب کیمپ تبدیل کر چکے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت اصل مسئلہ مفتاح اسماعیل کا بنا ہوا ہے۔ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی ان کے بہت قریب ہیں اور یہ ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے ہیں۔ اور یہ اس بات کے مخالف ہیں کہ اسحاق ڈار واپس آئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہی وجہ ہے کہ ڈار صاحب کا واپس آنا ایک بار پھر ٹھہر گیا ہے۔‘
’میرے خیال میں اس وقت پارٹی کے اندر دو مختلف معاشی نظریات کا بھی تصادم ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خیال میں جو ہو رہا ہے اس سے بہتر نہیں ہو سکتا، تاہم اسحاق ڈار یہ سمجھتے ہیں کہ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریلیف دینا بھی ممکن ہے۔ اور میں یہ تجزیہ نہیں دے رہا بلکہ میرے پاس فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے اور یہ بات سب کو پتا ہے۔‘
بظاہر مسلم لیگ ن کے اندر کا تناؤ جو دو بیانیوں کی حد تک محدود تھا جیسا کہ ووٹ کو عزت دو اور کام کو عزت دو، اب بڑھ کر دو مختلف معاشی منصوبہ بندیوں تک پھیل چکا ہے۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’صورت حال اس سے بھی ایک درجے آگے کی ہے۔‘
’آپ کو یاد ہے نا کہ مریم بی بی نے ایک ٹویٹ کی تھی کہ نواز شریف وہ میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے جس میں بجلی پر مزید ٹیکسوں اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی تجاویز سامنے رکھی گئی تھیں۔ اس حد تک تو بات ٹھیک ہے کہ نواز شریف اٹھ گئے تھے لیکن وہ اٹھے اس بات پر تھے جب شاہد خاقان عباسی نے انہیں یہ کہہ دیا کہ میاں صاحب اگر فیصلے ایسے کرنے ہیں تو آپ سے گزارش ہے کہ آپ واپس آجائیں۔ شاہد خاقان عباسی اس وقت مفتاح اسماعیل کی ترجمانی کر رہے تھے۔‘

مئی میں وزیراعظم شہباز شریف نے ن لیگ کے قائد نواز شریف سے ملاقات کی تھی (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

تاہم بعض تجزیہ کار مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلاف کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک دھڑا جو اس وقت حکومت چلا رہا ہے، ان کی حقیقت اس دھڑے سے مختلف ہے جو حکومت سے باہر بیٹھا ہے۔ 
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ حقائق بدل چکے ہیں۔ اس وقت جس معاشی صورت حال کا سامنا ہے اسے شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل چلا رہے ہیں۔
’میرا نہیں خیال کہ اسحاق ڈار اگر آ بھی جاتے تو اس دفعہ حالات ان کے موافق ہوتے۔ وہ باہر بیٹھے ہیں اور نواز شریف بھی سسٹم سے آؤٹ ہیں۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ وہ اپنا سیاسی برزخ کاٹ رہے ہیں۔ ان کو ویسا ادراک نہیں ہوگا جو سسٹم کے اندر بیٹھے افراد کو ہے۔ اس لیے بھی میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کی ٹویٹ کے بعد اس بات کی حیثیت محض ایک سیاسی اختلاف کی رہ گئی ہے۔ یہ کوئی منظم گروپ بندی نہیں ہے بلکہ کچھ زیادہ اونچی آواز میں بولنے والے اپنی بس حاضری ہی لگوا رہے ہیں۔
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اپنی اندرونی کشمکش کو اختلاف رائے کا نام دیتی رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اس کا انہیں فائدہ بھی رہا ہے اور نقصان بھی۔

شیئر: