Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوشہرہ کے سیلاب متاثرین، ’معلوم نہیں تھا ایک بار پھر خانہ بدوش بننا پڑے گا‘

ضلعی انتظامیہ نے نوشہرہ کے علاقے پیرسباق سے شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے لیے کہا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
’معلوم نہیں تھا ایک بار پھر ہمیں خانہ بدوش بننا پڑے گا۔‘ یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے جانان کے لہجے میں دکھ تھا۔
جانان خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے علاقے پیر سباق کے رہائشی ہیں۔ اُن کو جمعے کی رات سیلاب کے خطرے کی وجہ سے اہلخانہ کے ہمراہ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
جانان اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ نوشہرہ کینٹ میں واقع سیلاب سے محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے مگر اُن کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ آبائی گھر پانی میں ڈوب گیا تو مستقبل کیا ہوگا؟
جانان کی عمر 60 برس ہے اور وہ اپنی آدھی زندگی خلیجی ملک میں محنت مزدوری کرتے ہوئے گزار کر وطن واپس آئے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ سنہ 2010 کے سیلاب میں بھی اُن کا گھر ڈوب گیا تھا اور پھر وہ پشاور میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر رہے۔
’وہ بہت مشکل وقت تھا۔ گھر کی ساری قیمتی چیزیں اور سامان سیلاب کے پانی میں ضائع ہو گیا تھا۔‘
صرف 12 برس بعد دوبارہ سیلاب متاثرین میں شامل ہونے والے جانان نے بتایا کہ ’گزشتہ سیلاب اب بھی مجھے یاد ہے۔ ہمارے سارے جانور ہلاک ہوگئے تھے۔ سیلاب کے بعد بیماریاں پھیل گئی تھیں بہت مشکل سے ہم نے زندگی بحال کی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت بھی این جی اوز  نے ہماری مدد کی اور اس بار بھی ان ہی سے امید ہے۔ حکومت نے پہلے بھی اعلانات اور وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا۔‘ 
جانان نے بتایا کہ ’اہل علاقہ نے ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کو کئی بار دریا کے حفاظتی پشتوں کو مضبوط کرنے کا کہا تھا مگر کسی نے نہ سنی اور آج تقریبا تمام پشتے ٹوٹ کر بہہ گئے ہیں۔‘ 

ضلعی انتظامیہ کے مطابق فوج کے اہلکار متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ فوٹو: آئی ایس پی آر

جانان نے بتایا کہ ’مزدوری کی جمع پونجی سے ایک سال پہلے گھر کی مرمت کی تھی، پانچ لاکھ روپے خرچہ آیا تھا اب سیلاب کی وجہ سے سب تباہ ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جمعے کی شام اچانک اعلان ہوا کہ سیلاب آ رہا ہے گھر خالی کریں۔ میں گھر والوں کو لے کر نکل آیا بس کچھ ضروری چیزیں اور ادویات ساتھ لے آئے ہیں۔ اب اللہ ہماری مدد کرے۔‘ 
نوشہرہ کا علاقہ پیر سباق دریائے کابل کے قریب واقع ہے۔
یہاں کے ایک اور رہائشی زاہد علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سیلاب قدرتی آفت ہے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا مگر اس کے نقصان سے بچاؤ کی تیاری ہو سکتی تھی جو کہ حکومت نے نہیں کی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’رات کو صرف اعلان کر کے ہمیں گھروں سے نکالا گیا مگر یہ نہیں بتایا کہ کہاں منتقل ہونا ہے۔‘
 متاثرہ شہری زاہد علی کا کہنا تھا کہ ’اِس وقت پیر سباق پانی میں ڈوب چکا ہے کچھ جگہوں پر چار فٹ پانی ہے اور اُن کا گاؤں مکمل خالی کیا جا چکا ہے۔‘
پیر سباق ویلج کونسل ون کے جنرل کونسلر نے اردو نیوز کو بتایا کہ دو ویلج کونسل پر مشتمل اس گاؤں کی آبادی 20 ہزار کے لگ بھگ ہے جو مکمل ڈوب چکا ہے۔

علاقے میں سیلابی پانی داخل ہونے کے بعد شہری اپنے مویشی لے کر اونچے مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ’ریسکیو اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور ہم نے مزید کشتیاں مانگی ہے تاکہ ایمرجنسی میں کام آ سکیں۔ ہم اس وقت ایمرجنسی کی صورتحال میں ہیں جس سے نمٹنے کے لیے سامان چاہیے۔‘
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین نے موجودہ صورتحال کے حوالے اردو نیوز کو بتایا کہ پیرسباق مکمل خالی کروا رہے ہیں کیونکہ مزید ریلے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’بعض لوگ اپنے گھروں کو نہیں چھوڑنا چاہ رہے اس لیے بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ جہاں ضرورت ہوتی ہے زبردستی بھی کرتے ہیں کیونکہ لوگوں کی جان بچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔‘
اے ڈی سی قرۃ العین نے بتایا کہ پیر سباق میں آرمی کے جوان اس وقت ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں اور شہریوں کو قریبی سکول منتقل کیا گیا ہے۔ 
ضلعی انتظامیہ نے سرکاری سکولوں میں کیمپ قائم کر دیا ہے جہاں کھانے پینے اور دیگر سامان موجود ہے۔ ’ہم نے میڈیکل ٹیموں کو بھی ان کیمپوں کی طرف بھیج دیا ہے۔‘

شیئر: