Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوکرین تنازع، کیا چین اور انڈیا نے بھی روس کا ساتھ چھوڑ دیا؟

انڈیا اور چین دونوں کو روس کا روایتی اتحادی سمجھا جاتا ہے (فوٹو: روئٹرز)
چین اور انڈیا نے یوکرین میں جاری جنگ کے معاملے پر روایتی اتحادی روس کی حمایت کرنے کے بجائے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس یوکرین جنگ کو بامعنی مذاکرات کے ذریعے ختم کرائے، جس کو قدرے حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک ہفتے تک مسسلسل دباؤ کے بعد جیسے ہی روسی وزیر خارجہ نے روسٹرم سنبھالا تو مغربی ممالک کو شدید ردعمل دیتے ہوئے روس کے خلاف ان کے کردار کو ’تضادات کا مجوعہ‘ قرار دیا۔
دوسری جانب اہم بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی ملک روس کے ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دے رہا یہاں تک کہ چین بھی ایک طرف ہے حالانکہ فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کا صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ’اٹوٹ رشتہ‘ ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وینگ یی نے روس اور یوکرین دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہ وہ بحران کو مزید پھیلنے سے روکیں تاکہ ترقی پذیر ممالک مزید متاثر نہ ہوں۔
’چین ایسے تمام اقدامات کی حمایت کرتا ہے جو بحران کو پرامن حل کی طرف لے جاتے ہوں، ہماری ترجیح مذاکرت کے لیے سہولت مہیا کرنا ہے۔’
وینگ یی کے مطابق ’بنیادی حل یہ ہے کہ تمام فریقین کے قانونی سکیورٹی خدشات کو دور کیا جائے اور ایک متوازن، موثر اور پائیدار سکیورٹی ڈھانچہ تعمیر کیا جائے۔‘
اقوام متحدہ آمد کے موقع پر چینی وزیر خارجہ وینگ یی نے یوکرینی ہم منصب ڈمیترو کیولیبا سے ملاقات کی اور جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار ان کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔

انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے واضح کیا کہ وہ کسی ملک نہیں بلکہ امن کے ساتھ کھڑے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

رواں ماہ کے آغاز میں صدر پوتن نے اعتراف کیا تھا کہ چینی صدر نے شی جنپنگ نے ملاقات کے دوران یوکرین جنگ پر ’تحفظات‘ کا اظہار کیا تھا۔
چین کی جانب سے روس کی ٹھوس حمایت میں کمی پر امریکی حکام نے خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ نے اس نے فوجی سازوسامان بھجوانے کی درخواستوں کو مسترد کیا ہے جس سے روس جنوبی کوریا اور ایران پر انحصار کرنے پر مجبور ہوا ہے جبکہ اس کی سپلائی لائن میں بھی کمی آ رہی ہے۔
چین کے برعکس انڈیا امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا ہے تاہم اس کے روس کے ساتھ بھی روایتی اتحادی کے طور پر روابط ہیں اور دفاعی معاملات میں اس کی مدد بھی کرتا رہا ہے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ سبراہمنیم جے شکر نے اقوام متحدہ میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے جیسے یوکرین میں تصادم بڑھ رہا ہے ہم سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہر بار ہمارا جواب سیدھا اور سچا ہوتا ہے، انڈیا امن کی طرف کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا۔‘
لاروف نے مغرب پر روس کے ساتھ جان بوجھ کر تعلقات نہ رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ہم کبھی بھی رابطے رکھنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔‘

چینی وزیر خارجہ وینگ یی نے امریکہ میں یوکرینی ہم منصب ڈمیترو کیولیبا سے ملاقات کی (فوٹو: اے ایف پی)

روسی صدر پوتن کی جانب سے مزید فوجی جنگ میں شامل کرنے اور جوہری ہتھیاروں کے استعملا کی دھمکی کے بعد مغربی ممالک روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ روس کے زیرقبضہ علاقوں میں ہونے والے ریفرنڈم کے تنائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔
انہوں نے اقوام متحدہ میں روسی وزیر خارجہ کی ’تنہائی‘ کا خیرمقدم کیا ہے۔
لاروف نے یورپی یونین کو بھی تنقید کے نشانے پر رکھا اور اس کو ’آمرانہ اور تحکم پسندانہ‘ خصوصیات کا حامل قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ بلاک نے ایک رکن ملک قبرص کے صدر نیکوس انستاسیڈس کو ان کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کرنے پر مجبور کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم صرف مذاکرات اور جمہوریت کو واحد حل قرار دیتے ہیں۔‘
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے نیوز کانفرنس کے دوران اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا روس پر چین کی جانب سے کوئی دباؤ آیا ہے؟ اور جواب میں مغربی ممالک پر الزام لگایا۔
جنرل اسمبلی کے دوران خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مغرب میں سرکاری سطح پر روسوفوبیا حیران کن ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی جو تضادات کا شکار ہے۔‘
انہوں نے مغربی ممالک پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہمارے کو نہ صرف شکست دلوانے بلکہ روس کو تباہ کرنے کے عزم کے اظہار سے بھی گریز نہیں کر رہے۔‘

شیئر: