Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موسمیاتی تبدیلی: آفات سے نمٹنے کا حل ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس‘ ہے؟

جب بھی کوئی آفت آتی ہے چاہے سیلاب ہو، زلزلہ ہو، کہیں آگ لگ جائے یا کوئی اور بڑا سانحہ رونما ہو جائے تو ریسکیو اور بحالی کی سرگرمیوں کا بڑا انحصار ہیلی کاپٹرز پر ہوتا ہے۔ 
سیلاب اور زلزلے میں پھنسے لوگوں کو نکال کر ہسپتال پہنچانا ہو یا کھانا اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنا ہو، بالخصوص پاکستان میں اس کا سارا دارومدار ہیلی کاپٹرز کی دستیابی پر ہوتا ہے۔
زمینی سطح پر ان فوجی دستوں پر جو ہنگامی حالات میں نسبتاً کم مہارت یافتہ اور وسائل کی کمی کا شکار سویلین اداروں کی مدد کے لیے بلائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں آفات میں کام آنے والے ہیلی کاپٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں اور کسی سانحے کی صورت میں زیادہ کام فوج کے پاس موجود ٹرانسپورٹ اور کارگو ہیلی کاپٹرز سے لیا جاتا ہے۔
حالیہ سیلاب میں بھی ایسا ہی ہوا اور دور دراز پہاڑی علاقوں، بلوچستان کے بیابانوں اور سندھ کے میدانوں میں ہر جگہ لوگوں کو بچانے کے لیے نہ صرف عسکری اداروں کے ہیلی کاپٹرز استعمال ہوتے رہے، بلکہ امدادی کارروائیوں کا اب بھی زیادہ انحصار فوجی جوانوں پر ہے۔
ایسی پے در پے آفات اور ان کے بعد بحالی کے کاموں میں فوج کی افرادی قوت اور آلات کی ضرورت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ اب پاکستان کو جنگوں سے کہیں زیادہ خطرہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے ہے۔
 لہٰذا حکومت کو ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے زیادہ بجٹ آفات سے نمٹنے کی تیاری اور اس کے لیے آلات کی خریداری اور لوگوں کی تربیت پر خرچ کرنا چاہیے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ’پاکستان کو ان آفات سے مستقل بنیادوں پر نمٹنے کے لیے ایک الگ باقاعدہ خصوصی فورس ترتیب دینی چاہیے۔‘
ماہرین کے مطابق افواج پاکستان کے پاس 350 سے زائد ہیلی کاپٹرز ہیں جن میں سے 100 کے قریب ٹرانسپورٹ اور کارگو ہیں۔ ان میں سے کچھ قدرتی آفات کے وقت ریسکیو اور بحالی کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ ’ہماری ترجیحات مسائل کا شکار رہی ہیں، ہم نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہمارے خطرات کس قسم کے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی فوج کی جانب سے مہیا کیے گیے اعدادوشمار کے مطابق حالیہ سیلاب کے بعد ابتدائی دنوں میں لوگوں کو بچانے اور ان تک امدادی سامان پہنچانے کے لیے 21 ہیلی کاپٹرز مختص کیے گیے تھے۔
ان ہیلی کاپٹرز نے تقریباً دو ہفتوں میں 447 پروازوں کے ذریعے سیلاب میں گھرے ہوئے 4042 لوگوں کو بچایا۔
پاکستانی بحریہ کی جانب سے دی گئی معلومات کے مطابق نیوی نے اندرون سندھ سیلاب متاثرین کو بچانے اور مدد فراہم کرنے کے لیے 7 ستمبر تک دو ہیلی کاپٹر  فراہم کیے تھے۔
ان ہیلی کاپٹروں نے 43 سے زائد پروازوں کے ذریعے 400 سے زائد افراد کو بچایا اور تین ہزار سے زائد راشن بیگز تقسیم کیے۔
اس کے علاوہ بحریہ نے 46 موٹر والی کشتیوں اور دو ہوور کرافٹ جو پانی اور زمین دونوں پر چلایا جا سکتے ہیں کے ذریعے بھی متاثرین کی مدد کی۔
پاکستان کے سینیئر صحافی اور تزویراتی اثاثوں کے بارے میں آگاہی رکھنے والے تجزیہ کار عمر فاروق کے مطابق پاکستان کے سول اداروں میں سے کسی کے پاس بھی ایسے ہیلی کاپٹرز نہیں ہیں جو ہنگامی صورت حال میں آپریشنز کر سکیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد کے مطابق ’پاکستان الگ سے ایک ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس کھڑی کرنے کی حالت میں نہیں ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’وفاقی و صوبائی حکومتوں اور ان کے کچھ اداروں کے پاس جو چند ایک ہیلی کاپٹرز موجود ہیں وہ زیادہ تر وی آئی پی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی فوج کے پاس موجود ہیلی کاپٹرز میں سے 80 سے 90 ہیلی کاپٹرز ہنگامی آفات میں ریسکیو اور ریلیف کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں جو کہ ٹرانسپورٹ یا کارگو ہیلی کاپٹرز ہیں۔‘
’ان میں ایم آئی 17 روسی ساختہ ہیلی کاپٹرز اور فرانسسیسی ساختہ پوما ہیلی کاپٹرز شامل ہیں جو اس کام کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔‘
ہوابازی کے ماہر بریگیڈیئر فاروق حمید کے مطابق ’پاکستانی فوج کے پاس کارگو اور فوجی دستوں کی منتقلی کے لیے ہیلی کاپٹرز کا وسیع بیڑا موجود ہے جن میں ایم آئی 17 اور پوما ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’قدرتی آفات کی صورت میں بھی یہی ہیلی کاپٹرز استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں پروازوں کے لیے موزوں ہیں اور ان کو اُڑانے والے پائلٹ کہیں بھی پھنسے ہوئے متاثرہ لوگوں کو بچانے کے لیے اعلٰی تربیت یافتہ ہیں۔‘

تجزیہ کار عمر فاروق کہتے ہیں کہ ’آپ فوجی بجٹ کم کر کے ان خطرات کا سامنا کرنے کی تیاری کریں جو اس وقت درپیش ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید کہتے ہیں کہ ’سویلین ادارے اس نوعیت کی تربیت نہیں رکھتے اور اس طرح کے آپریشنز کے لیے لازماً فوج کی ہی مدد لینا پڑتی ہے۔‘
عمر فاروق کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے اب تک خطے کی بدلتی موسمی صورت حال کے مطابق انفراسٹرکچر اور آلات میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کی اور اب وقت آگیا ہے کہ اس بارے میں کوئی سنجیدہ فیصلہ کر کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی مستقل ڈھانچہ تیار کیا جائے۔‘
’مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہی ہیں۔ ہم نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہمارے خطرات کس قسم کے ہیں۔‘
’ہمیں 2010 کے سیلاب سے پہلے یہ فیصلہ کر لینا چاہیے تھا۔ مغربی دنیا ہمیں بتا رہی تھی کی اس سے زیادہ خطرناک سیلاب آپ کے ملک میں آنے والے ہیں لیکن ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔‘
عمر فاروق کا بھی یہ کہنا ہے کہ ’پاکستان کے زیادہ اخراجات فوجی سازوسامان خریدنے پر ہوتے ہیں اور اگر پاکستان یہ سامان خریدتے وقت ایسی حکمت عملی ترتیب دے کہ اس کا استعمال آفات سے نمٹنے میں بھی ہو جائے تو کچھ بہتری آسکتی ہے۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی مستقل ڈھانچہ تیار کیا جائے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ فوجی بجٹ کم کریں اور ان خطرات کا سامنا کرنے کی تیاری کریں جو اس وقت آپ کو درپیش ہیں۔‘
عمر فاروق کہتے ہیں کہ ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے پاس اپنے آلات ہوں، آپ ان کے لیے بجٹ رکھیں کہ وہ اپنے لیے ہیلی کاپٹرز خریدیں جو ریسکیو اور ریلیف کے لیے استعمال کریں۔‘
’فوجی خطرہ نہ بڑھ رہا ہے نہ کم ہو رہا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ اگر آپ اس پر بجٹ نہیں لگائیں گے اور اس کے لیے اپنا انتظام نہیں کریں گے تو یہ آنے والے دنوں میں آپ کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ ریسکیو کے پیشہ ور ماہرانہ ادارے بنائیں، ان کو ایسے آلات دیں، افرادی قوت فراہم کریں جو حادثات میں ریسکیو اور ریلیف کا کام کر سکیں۔‘
عمر فاروق نے بتایا کہ ’انڈیا نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے اور انڈین آرمی سے ایک بریگیڈ الگ کر کے اس کو باقاعدہ ایک ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس‘ بنا دیا گیا ہے۔‘
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستانی فوج کے پاس 80 کے قریب ایسے ہیلی کاپٹرز ہیں جو ٹرانسپورٹ اور کارگو کے لیے کام آتے ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق سول اداروں کے پاس ایسے ہیلی کاپٹرز نہیں جو ہنگامی صورت حال میں آپریشنز کر سکیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’لیکن کسی بھی فوج کے ایئر کرافٹ کا ایک بڑا حصہ ہر وقت زیر مرمت رہتا ہے اور آفات کی صورت میں کچھ ہیلی کاپٹرز ہی ریسکیو اور ریلیف کے مشن پر لگائے جا سکتے ہیں۔‘
لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد نے بھی پاکستان کے عسکری خطرات نسبتاً کم ہونے سے اتفاق کیا تاہم ان کے مطابق ’پاکستان الگ سے ایک ڈیزاسٹر مینجمنٹ فورس کھڑی کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک الگ فورس بنانے پر بہت خرچ آئے گا جس کا پاکستان کم سے کم اس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔‘
’ایک تو ہیلی کاپٹرز اور دیگر آلات کو قابل استعمال حالت میں رکھنے کے لیے بہت اخراجات آتے ہیں اور دوسرا آفات نہ ہونے کی صورت میں اتنی بڑی مشینری کے خراب ہونے اور اس سے منسلک افرادی قوت کے ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔‘
جنرل ندیم نے بتایا کہ ’2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب کے بعد دی جانے والی امداد میں ایک یورپی ملک کی طرف سے کچھ ہیلی کاپٹرز بھی فراہم کیے گیے تھے جن کو ایئر فورس کے حوالے کیا گیا لیکن وہ اس قابل نہیں تھے کہ بعد میں استعمال کیے جائیں۔‘

تجزیہ کار عابد سلہری کے مطابق ’اگر قومی سطح پر کوئی نیا ادارہ کھڑا کیا گیا تو وہ سیاست کا شکار ہو جائے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق ’اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے ماتحت قائم کیا گیا 6 سکواڈرن بھی ماضی میں آنے والی آفات کے بعد قائم کیا گیا تھا لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔‘
نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ کے رکن اور سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری کا خیال ہے کہ ’ضلعی سطح پر انتظامیہ کو بااختیار بنایا جائے۔‘
 ’ضلعی انتظامیہ کو ہنگامی حالات میں کام آنے والے آلات اور افرادی قوت فراہم کر کے فوری ایکشن کے لیے تیار کیا جائے کیونکہ کسی بھی آفت کی صورت میں سب سے پہلے انہیں ہی حالات سے لڑنا پڑتا ہے۔‘
عابد سلہری کے مطابق ’اگر قومی سطح پر کوئی نیا ادارہ کھڑا کیا گیا تو وہ سیاست کا شکار ہو جائے گا۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ’کورونا سے نمٹنے کے لیے بنائے گیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی طرز پر مرکزی سطح پر رابطے کے لیے ایک ادارہ ضرور ہونا چاہیے جو آفات کی صورت میں تمام متعلقہ فورسز کو باہم منسلک کرے۔‘

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ’پاکستان کو ان آفات سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ خصوصی فورس ترتیب دینی چاہیے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد کہتے ہیں کہ ’این ڈی ایم اے یہی کام کر رہا ہے اور اس کو پورا اختیار ہے کہ وہ ہنگامی حالات میں فوج سمیت جس ادارے سے جس طرح کی چاہے مدد طلب کرے۔‘
ان کے خیال میں ’قومی سطح پر الگ سے ایک نئی فورس بنانا اس لیے بھی ممکن نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کافی حد تک خود مختار ہیں اور آفات سے نمٹنا بھی بنیادی طور پر ان کی ذمہ داری ہوتا ہے نہ کہ ایک وفاقی ادارے کی۔‘

شیئر: