Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹ قوانین میں تبدیلی، آل راؤنڈر ونو منکڈ پر لگا دھبہ دھل جائے گا

ونو منکڈ کے بیٹے نے باپ کے نام کو رن آؤٹ سے منسوب کرنے پر احتجاج کیا تھا۔ (فائل فوٹو: بشکریہ دی ہندو)
حال ہی میں آئی سی سی نے جن کرکٹ قوانین میں تبدیلی کی منظوری دی ہے ان میں سے ایک تبدیلی سے انڈیا کے مایہ ناز آل راؤنڈر ونو منکڈ کی ذات پر لگا دھبہ دھل جائے گا۔
عجلت پسند نان سٹرائیکر گیند ڈیلیور ہونے سے پہلے کریز سے نکلنے پر بولر کے ہاتھوں رن آؤٹ ہوتا تو اسے ’منکڈنگ‘ کہا جاتا تھا لیکن اب یہ عام رن آؤٹ تصور ہوگا اور اسے کھیل کی روح کے منافی بھی نہیں سمجھا جائے گا۔
کرکٹ میں ’منکڈنگ‘ کی اصطلاح رواج پانے کی تاریخ یہ ہے کہ انڈین کرکٹ ٹیم کے 1947/48 میں دورہ آسٹریلیا میں ونو منکڈ نے دو دفعہ نان سٹرائیکر بل براؤن کو رن آؤٹ کیا۔
پہلی دفعہ آسٹریلین الیون سے میچ میں اور دوسری بار سڈنی ٹیسٹ میں۔ آسٹریلین پریس نے اس حرکت پر بڑا شور مچایا  اور اسے منکڈنگ کا نام دیا۔ وزڈن (1949) کے مطابق، پہلے واقعے میں منکڈ نے وارننگ کے بعد جبکہ دوسرے میں بغیر وارننگ کے براؤن کو آؤٹ کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آسٹریلوی کپتان اور عظیم بیٹسمین ڈان بریڈ مین نے اپنی کتاب ’فئیر ویل ٹو کرکٹ‘ میں ونو منکڈ کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ جب کرکٹ قوانین میں یہ بات واضح ہے کہ گیند ڈیلیور ہونے سے پہلے نان سٹرائیکر کو کریز میں ٹھہرنا ہے تو پھر اس کے رن آؤٹ کو غیر منصفانہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
بریڈ مین کی یہ قیمتی رائے بھی بدقسمت منکڈ کے کسی کام نہ آئی اور ان کی ذات پر کلنک کا ٹیکہ لگ گیا۔ کرکٹر کی حیثیت سے ان کے کارنامے گہنا گئے جن پر یہاں ایک اجمالی نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ملکہ برطانیہ بھی ونو منکڈ کے کھیل سے متاثر ہوئیں۔ (فائل فوٹو)

سنہ 1952 میں انڈین کرکٹ ٹیم نے مدراس میں انگلینڈ کو پہلی دفعہ ٹیسٹ میچ میں چت کیا تو اس میچ میں منکڈ نے بارہ وکٹیں حاصل کیں۔ اسی سال دہلی میں انڈیا نے پاکستان سے پہلا ٹیسٹ جیتا تو انہوں نے 13 وکٹیں لے کر اس کامیابی میں بھرپور حصہ ڈالا۔ 1952 میں لارڈز ٹیسٹ میں انہوں نے 72 اور 184رنز بنائے اور پانچ کھلاڑی  آؤٹ کیے۔
کہا جاتا ہے کہ ملکہ برطانیہ بھی منکڈ کے کھیل سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور جب ملکہ نے اُن سے ہاتھ ملایا تو انہیں یہ بات بتائی بھی تھی۔ 1956 میں نیوزی لینڈ کے خلاف 231 رنز بنائے اور پنکج رائے کے ساتھ پہلی وکٹ کی شراکت میں 413 رنز جوڑے۔ یہ ریکارڈ 52 برس قائم رہا۔
منکڈ اپنے زمانے کے عظیم آل راؤنڈر تھے۔ انہیں کیتھ ملر آف انڈیا کہا جاتا تھا۔ ٹیسٹ ڈبل کرنے والے پہلے انڈین، یعنی سو وکٹیں اور ایک ہزار رنز۔ 1947 میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا۔ گزشتہ برس آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل ہوئے۔
کرکٹ کی لغت میں منکڈ کی منفی حوالے سے شمولیت میں انڈیا میں احتجاج ہوتا رہا۔ اسے نسل پرستی کا شاخسانہ بھی قرار دیا گیا۔ اس کے خلاف ایک توانا آواز سنیل گواسکر کی رہی جن کی ہمدردی اپنے ہم وطن کے ساتھ تھی جسے ان کی دانست میں غلط طور پر مجرم بنا دیا گیا۔ سنہ 2017  میں انہوں نے کہا کہ اس رن آؤٹ کو منکڈ کے بجائے بیٹسمین بل براؤن کے نام سے موسوم ہونا چاہیے۔
ان کے اصل الفاظ یہ تھے: If you want to call it anything just say the batsman was " browned, not "mankaded"
 سنہ 2020 میں انگلینڈ کے سابق کپتان اور نامور رائٹر مائیک بریرلی کی کتاب ’سپرٹ آف کرکٹ‘ شائع ہوئی تو اس کا پہلا باب اسی قضیے کے بارے میں تھا۔  
 گزشتہ برس وومن انڈر نائٹین مقابلوں کے سیمی فائنل میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش کے میچ میں جب ’منکڈنگ‘ کا لفظ استعمال ہوا تو ونو منکڈ کے بیٹے راہول منکڈ نے ای میل کے ذریعے بی سی سی آئی کے صدر سارو گنگولی کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اور اب  آئی سی سی کے جس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نان سٹرائیکر یعنی بولنگ اینڈ پر کھڑے  بیٹر کا رن آؤٹ باقاعدہ رن آؤٹ ہی مانا جائے گا اور ان میں کوئی تخصیص نہیں ہوگی، اس کی صدارت گنگولی نے کی۔
آئی سی سی نے یہ  فیصلہ ونو منکڈ کی وفات کے 44 سال بعد کیا جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔

بولر کی جانب سے گیند پھینکنے سے قبل نان سٹرائیکنگ اینڈ پر بلے باز کو رن آؤٹ کرنا متنازع رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ نان سٹرائیکر کے رن آؤٹ کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کیا اب بھی اسے غیر مستحسن اور باعث نزاع سمجھا جاتا رہے گا یا اسے معمول کے رن آؤٹ کی طرح قبول کر لیا جائے گا۔
اس نوع کے آؤٹ میں یہ تفریق البتہ ضرور رہی ہے کہ اگر بیٹسمین کے خلاف  وارننگ کے بعد ’کارروائی‘ ڈالی گئی تو اس کا ردعمل بغیر وارننگ کے ’کارروائی‘ سے کم ہوا۔
موجودہ دور کے کھلاڑیوں میں انگلینڈ کے جوز بٹلر پر دونوں طریقے آزمائے گئے۔ سنہ 2014 میں ایک ون ڈے میچ میں سری لنکا کے بولر سینانایک نے انہیں وارننگ کے بعد پویلین کی راہ دکھائی تو 2019 میں آئی پی ایل کے ایک میچ میں روی چندر ایشون نے بغیر وارننگ کے چلتا کیا۔
کرکٹ کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس قسم کے رن آؤٹ نے تنازعے کو ضرور جنم دیا۔ پاکستانی ٹیم کی بات کریں تو 1979 میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ ٹیسٹ میں ایلن ہرسٹ کے ہاتھوں سکندر بخت کے آؤٹ ہونے کی طرف دھیان جاتا ہے جس کا قومی ٹیم نے بہت برا مانا اور اس کا بدلہ سرفراز نواز نے اپنے انداز میں چکا کر بدمزگی مزید بڑھا دی۔
پاکستانی لیفٹ آرم سپنر نے اپنی کتاب ’اقبال قاسم اور کرکٹ‘ میں لکھا: ’ہرسٹ نے سکندر بخت کو نان سٹریکنگ اینڈ پر رن آؤٹ کیا۔ ہرسٹ نے جب دیکھا کہ سکندر بخت، آصف اقبال کا ساتھ دے رہے ہیں اور گیند کرانے سے قبل آگے بڑھ جاتے ہیں تو انہوں نے بجائے اس کے سکندر بخت کو وارننگ دیتے، بولنگ کے لیے آئے، گیند نہیں پھینکی بلکہ سٹمپ گرا دی اور رن آؤٹ کی اپیل کی۔ بغیر گیند کرائے رن آؤٹ کی یہ اپیل سپورٹس مین سپرٹ کے خلاف تھی، سکندر آؤٹ ہو گئے۔
پاکستانی کھلاڑی ہرسٹ کی اس حرکت سے ناخوش تھے، جب آسٹریلیا کی باری آئی سرفرار نواز بولنگ کر رہے تھے۔ ہلڈچ سٹرائیکنگ اینڈ پر تھے۔ فیلڈر کی پھینکی ہوئی گیند ہلڈچ نے اٹھا کر سرفراز کو دی۔ سرفراز نے فوری طور پر ’ہینڈلڈ دی بال‘ کی اپیل کی، قانوناً یہ اپیل جائز تھی لیکن سپورٹس مین سپرٹ کے خلاف تھی۔ بہر حال امپائر نے ہلڈچ کو آؤٹ قرار دے دیا۔ ان دونوں واقعات کے سبب اس دن کو کرکٹ کی تاریخ میں بلیک ڈے آف کرکٹ قرار دیا گیا۔‘

والش کے سلیم جعفر کو رن آؤٹ کرنے کے بجائے وارننگ کو شائقین نے پسند کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قارئین! منکڈنگ کی وجہ سے کرکٹ میں بہت سی تلخیوں نے جنم لیا لیکن چلیں اب ہم آپ کو اس سے جڑی ایک مثبت مثال کے بارے میں  بتاتے ہیں اور اسی پر اپنی تحریر کو ختم کرتے ہیں۔
 واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1987  کے ورلڈ کپ کے ایک اہم میچ میں ویسٹ انڈیز نے 216 رنز بنائے۔ ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بیٹنگ لائن اپ لڑکھڑا گئی۔ وکٹ کیپر سلیم یوسف 56 رنز بنا کر میچ میں ٹیم کو واپس لے آئے  لیکن ٹیم جیت سے 15 رنز کی دوری پر تھی کہ وہ آؤٹ ہو گئے۔
آخری اوور میں جیت کے لیے 14 رنز چاہیے تھے اور ایک وکٹ باقی تھی۔ عبدالقادر اور سلیم جعفر وکٹ پر موجود تھے۔ پہلی دو گیندوں پردو رنز بنے، تیسری گیند پر عبدالقادر نے دو رنز چرائے، چوتھی گیند پر چھکا لگا کر سب کو حیران کر دیا اور اگلی دونوں گیندوں پر دو دو رنز بنا کر پاکستان کو یادگار فتح دلا دی۔
اس سے پہلے والش آخری گیند کروانے آئے تو ان کے گیند ڈیلیور کرنے سے پہلے ہی نان سٹرائیکر سلیم جعفر کریز سے باہر نکل گئے۔ وہ چاہتے تو انہیں آؤٹ کرکے میچ کا پانسہ اپنی ٹیم کے حق میں پلٹ دیتے لیکن وہ بیٹسمین کو وارننگ دے کر آخری گیند کروانے کے لیے پلٹ گئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ والش کا یہ حسن عمل کرکٹ کے حلقوں میں ہی نہیں عام شائقین کے دلوں میں بھی گھر کر گیا۔

شیئر: