Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمنی انتخابات میں جیت، عمران خان نے اپنا ہی ریکارڈ کیسے توڑا؟

پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد یہ تحریک انصاف کی دوسری بڑی کامیابی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے ضمنی انتخابات میں چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنا ہی پانچ نشستوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
تاہم انھیں ایک نشست پر خود اور دوسری نشست پر تحریک انصاف کی امیدوار مہربانو قریشی کی شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
17 جولائی کے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد یہ تحریک انصاف کی دوسری بڑی کامیابی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتیجے میں تو تحریک انصاف پنجاب میں اپنی حکومت واپس لینے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن موجودہ کامیابی کے پارٹی کی سیاسی تحریک، عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کے مطالبے  اور اس سلسلے میں لانگ مارچ سے متعلق فیصلوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سوال اس وقت زیر بحث ہیں۔
انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا کہ ’‏الحمدللّٰہ قوم نے ایک بار پھر عمران خان کو اپنی امیدوں کا محور ثابت کیا۔ ’تمام‘ نشستوں پر عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے کہتا ہوں عوام کی خواہش کا احترام کریں فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کریں حکومت سے الیکشن کے فریم ورک پر گفتگو کے لیے تیار ہیں۔’
اس سے بظاہر تو یہ اشارہ ملتا ہے کہ تحریک انصاف اب بھی عام انتخابات کے لیے ہی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ضمنی انتخابات میں کل آٹھ نشستوں میں سے چھ پر عمران خان کی کامیابی سے دو باتیں بالکل واضح ہو گئی ہیں کہ اس وقت عمران خان عوامی سطح پر ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ دوسرا انھوں نے گزشتہ چھ ماہ کے اندر جو بیانیہ بنایا ہے وہ بھی عوام میں مقبول ہے۔ ’اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ فی الوقت عمران خان کا بیانیہ نہ صرف جیتا ہے بلکہ اسے تقویت بھی ملی ہے۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عامر الیاس رانا کے مطابق اس جیت سے یقیناً عمران خان کے بیانیے کو تقویت ملی ہے لیکن اگر اس ضمنی انتخاب کا تقابل پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے کیا جائے تو وہ ماحول نہیں بنا جو اس وقت بنا تھا۔

عامر الیاس رانا کے مطابق عمران خان اور ان کا بیانیہ جیتا ہے جس کے اثرات موجودہ سیاسی صورت حال پر بھی پڑیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے باوجود عمران خان اور ان کا بیانیہ جیتا ہے جس کے اثرات موجودہ سیاسی صورت حال پر بھی پڑیں گے اور اگلے عام انتخابات کے لیے اس میں کافی کچھ واضح ہوگیا ہے۔
’لیکن اس جیت سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف جیتے گی کیونکہ ہر انتخاب کے اپنے ڈائینامکس ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس وقت بھی اگر آپ دیکھیں تو ٹرن آؤٹ اور عمران خان کا ہارنے والے امیدواروں سے جیتنے کا جو مارجن ہے وہ بھی اگرچہ ایک دو حلقوں میں کافی زیادہ ہے لیکن زیادہ تر حلقوں میں مخالف امیدواروں نے عمران خان سے قریب ترین ووٹ لیے یعنی جیتنے کا مارجن کم تھا۔
’اس صورت حال میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر عمران خان کی جگہ تحریک انصاف کے کوئی اور امیدوار ہوتے تو بھی نتائج یہی ہوتے تو جواب ملتان کی نشست پر مل جاتا ہے۔ ظاہر ہے عام انتخابات میں عمران خان خود امیدوار نہیں ہوں گے تو اس کا فائدہ مخالف امیدواروں کو ہی ملے گا۔‘
اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی مرضی کے حلقے چنے تھے تقریباً تمام حلقوں میں کنگز پارٹی کا مشترکہ ووٹ جو ان کے امیدواروں نے 2018 میں لیا تھا تحریکِ انصاف سے دگنا تھا۔ اپنی مرضی کا الیکشن ڈے چنا اور الیکشن کمیشن بھی اپنا مگر پھر بھی ’تمام‘ سیٹیں ہار گئے۔
عام انتخابات میں جب سب جماعتوں کے امیدوار میدان میں موجود ہوں گے تو ان کا ووٹ پھر تقسیم ہوگا اور تحریک انصاف اپنا ووٹ بینک مزید بڑھا کر کامیابی حاصل کرے گی۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کامیابی میں دوسرا بڑا ہاتھ ان ووٹرز کا ہے جو عمران خان کے چار سالہ دور میں ان سے ناراض ہوگئے تھے۔ ’حکومت تبدیل ہونے کے بعد وہ لوگ تذبذب کا شکار تھے کہ کس طرح سے ردعمل دینا ہے لیکن مہنگائی نے ان کا جو حشر کیا ہے اس کے بعد انھوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا جو حکمران اتحاد کی شکست کا باعث بنا۔ ‘

رانا علام قادر کا کہنا ہے کہ عملاً تو عمران خان کو اس کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اسمبلی میں واپس نہیں آنا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے مطابق اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر تحریک انصاف یا ن لیگ کے ووٹ بینک میں کمی یا اضافہ نہیں ہوا بلکہ عمران خان کی کامیابی میں مہنگائی نے کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے ن لیگ کے پاس آخری آپشن اسحاق ڈار تھا اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں اور ملکی معاشی صورت میں بہتری آتی ہے تو آئندہ انتخابات میں ن لیگ کو ریلیف مل سکے گا لیکن یہ ریلیف عوام کو ملنے والے ریلیف سے مشروط ہے۔
 اگر ان انتخابات کے نتائج کا آئندہ انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کہ حوالے سے اگرچہ تحریک انصاف کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ انتخابات دراصل عام انتخابات کے نتائج کا پیشہ خیمہ ہیں لیکن عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی نئی تعیناتی سے پہلے انتخابات نہیں ہوتے اور نواز شریف پاکستان واپس آ جاتے ہیں اور بالخصوص اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی سزا ختم کر دیتی ہے ملکی سیاست کا رخ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔

’عمران خان اس کامیابی کو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار اور صحافی رانا غلام قادر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنی چھوڑی ہوئی آٹھ میں سے چھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اس سے جہاں ایک طرف عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں تحریک انصاف کو دو نشستوں پر شکست ان کے لیے سیٹ بیک بھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عملاً تو عمران خان کو اس کامیابی کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اسمبلی میں واپس نہیں آنا لیکن وہ اس کامیابی کو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
ان کے مطابق ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی کامیاب جماعت کے طور پر سامنے آئی اور ن لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے آسان نہیں ہوں گے بلکہ ہر جماعت کو محنت کرنا ہوگی۔

شیئر: