Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں ضمنی انتخابات کے دوران ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم ہونے کی وجہ کیا ہے؟

کراچی کے دونوں حلقوں کا ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
کراچی کے دو حلقوں میں ضمنی انتخابات کے غیرحتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ایک ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
گزشتہ انتخابات کی طرح اس الیکشن کے موقع پر بھی ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ووٹرز موجودہ سیاسی جماعتوں سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ٹرن آؤٹ میں کمی کی ایک اہم وجہ بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) الطاف حسین کی جانب سے مسلسل انتخابی عمل کے بائیکاٹ کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقہ ملیر اور شاہ فیصل کالونی کے دو حلقوں میں اتوار کے روز ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ دونوں نشستوں پر کراچی میں سیاست کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا۔
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے ماضی کے دیگر ضمنی انتخابات کی طرح اس الیکشن کا بھی بائیکاٹ کیا جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے الیکشن میں حصہ نہیں لیا گیا۔
کراچی کے حلقہ این اے 237 اور این اے 239 آبادی کے حساب سے کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتے ہیں اور یہاں تقریباً تمام ہی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے رہائش پذیر ہیں۔
اتوار کے روز ہونے والے انتخابات کے لیے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور ووٹرز کو گھروں سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ چھٹی کے دن کا انتخاب کیا گیا تاکہ حلقے میں رہنے والے باآسانی ووٹ کاسٹ کرسکیں۔ اس کے باوجود ووٹنگ ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا ہے۔ اور جیتنے والے امیدوار چند ہزار ووٹ ہی حاصل کرسکے ہیں۔ جبکہ حلقے کے رہائشیوں کی اکثریت انتخابی عمل سے دور نظر آئی ہے۔ 

کراچی کے دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق حلقہ این اے 237 ملیر میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ تقریبا 21 فیصد رہا ہے جبکہ دوسری نشست این اے 239 کورنگی ون میں تقریباً 15 فیصد ٹرن آؤٹ رہا ہے۔  این اے 237 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ نے عمران خان کو شکست دے دی جبکہ این اے 239 سے عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔

کیا کراچی کے عوام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوگئے ہیں؟
سینیئر صحافی رفعت سعید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی کے رہائشی گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی عمل سے دور نظر آئے ہیں۔ اس میں ایک عنصر الطاف حسین بھی ہوسکتا ہے لیکن اتنی بڑی آبادی کے شہر میں الطاف حسین کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وہ بھی انتخابی عمل میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ عوام کا ہر گزرے روز کے ساتھ انتخابی عمل سے دور ہونا سیاست دانوں کی ناکامی ہے، شہر میں بے شمار مسائل ہیں اور ان کے حل کے لیے آواز اٹھانے والے نا ہونے کے برابر ہیں۔
یاد رہے کہ کراچی میں تحریک انصاف کے رکن عامر لیاقت کے انتقال پر خالی ہونے والی نشست این اے 245 پر جب رواں سال اگست میں انتخاب ہوا تو تحریک انصاف کامیاب تو ہوئی تھی لیکن وہاں بھی ٹرن آؤٹ 12 فیصد سے کم رہا تھا۔
تحریک انصاف کے امیدوار محمود مولوی 29 ہزار 475 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ ایم کیو ایم کے معید انور 13 ہزار 193 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
اسی طرح رواں سال جون میں کراچی کے حلقہ این اے 240 کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار محمد ابوبکر 10 ہزار 683 ووٹ حاصل کر کے پہلے نمبر پر جبکہ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار شہزادہ شہباز 10 ہزار 618 ووٹ لے دوسرے نمبر پر رہے۔
اس انتخاب میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ دس فیصد سے کم 8.38 رہا تھا۔ یہ نشست ایم کیو ایم کے رہنما محمد اقبال کے انتقال پر خالی ہوئی تھی۔

عامر لیاقت کی سیٹ پر بھی دوبارہ پی ٹی آئی کا امیداوار ہی جیتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں انتخابی عمل کو کور کرنے والے سینیئر صحافی عبدالجبار ناصر نے اردو نیوز کو بتایا کہ شہر میں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ کم ہونے کی اہم وجہ عوامی مسائل کا حل نہ ہونا ہے اور تین دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والی جماعت کے سابق سربراہ کا انتخابی عمل کا بائیکاٹ بھی ٹرن آؤٹ میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں عمران خان کی موجودگی کے باوجود ووٹرز نہیں نکلیں ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں حلقوں میں ووٹرز ہونے کے باوجود صرف چند ہزار ووٹرز ہی انتخابی عمل کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

شیئر: