Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کو لال حویلی خالی کرنے کا حکم

شیخ رشید نے سات روز میں لال حویلی خالی کرنے کا حکم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
محکمہ اوقاف نے لال حویلی سمیت متروکہ وقف املاک سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے لال حویلی واپس لینے کا حکم دیا ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد گزشتہ روز ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک راولپنڈی نے شیخ رشید کو سات روز میں لال حویلی خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس کے بعد شیخ رشید نے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک راولپنڈی کی جانب سے سات روز میں لال حویلی خالی کرنے کا حکم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
فیصلے میں لال حویلی سمیت سات مختلف یونٹس پر شیخ رشید اور ان کے بھائی کا قبضہ غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔
ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر آصف خان نے کیس سے متعلق 26 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
فیصلے کے مطابق درخواست گزار لال حویلی سمیت دیگر یونٹس سے متعلق کوئی ریکارڈ پیش نہ کرسکا تھا۔ شیخ برادران نے 1995 سے محکمہ اوقاف کو کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی زیر قبضہ اراضی کی ریگولائزیشن اور ٹرانسفر کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔
فیصلے کے مطابق بوہڑبازار میں لال حویلی سمیت سات اراضی یونٹس پرشیخ رشید اور شیخ صدیق غیرقانونی قابض ہیں۔ سات اراضی یونٹس کی متعدد سماعتیں متروکہ وقف املاک کی کورٹ میں ہوئیں۔ شیخ رشید اور ان کے بھائی کو ریکارڈ پیش کرنے کے لیے متعدد مواقع دیے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ متروکہ وقف املاک نے درخواست گزار کی استدعا پر متعدد بار سماعت ملتوی کی، لال حویلی اور اس سے ملحقہ چھ اراضی سے متعلق شیخ رشید اور ان کے بھائی کو متعدد نوٹسزجاری کیے، متعدد مواقع دینے کے باوجود درخواست گزار کوئی ریکارڈ پیش نہیں کرسکے۔
فیصلے کے مطابق درخواست گزار کرایہ داری کی تبدیلی کی کوئی تحریری دستاویزات پیش نہ کرسکے۔ بار بار نوٹس کے باوجود درخواست گزار قانونی تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے۔

نواز شریف اور عمران خان سمیت کئی قومی رہنما بھی لال حویلی جا چکے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

راولپنڈی کے بوہڑ بازار میں واقع لال حویلی شیخ رشید کے سیاسی مرکز کی وجہ سے معروف ہے اور ان کے تمام اہم جلسے یہیں منعقد ہوتے ہیں اور شیخ رشید اس کی بالکونی میں کھڑے ہوکر خطاب کرتے ہیں۔ 14 اگست کو لال حویلی میں آتش بازی بھی برسوں سے روایت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
نواز شریف اور عمران خان سمیت کئی قومی رہنما بھی لال حویلی جا چکے ہیں جہاں انھوں نے عوام سے خطاب بھی کیا ہے۔
لال حویلی پر قبضے کا معاملہ پہلی دفعہ منظرعام پر نہیں آیا بلکہ ماضی قریب یعنی2014 میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران متروکہ وقف املاک کے چیئرمین صدیق الفاروق کے دور میں بھی شیخ رشید اور ان کے بھائی کو لال حویلی اور اس سے متصل مندر خالی کرنے کا نوٹس جاری ہوا تھا۔
اسی نوٹس کو شیخ رشید اور ان کے بھائی شیخ صدیق نے چیلنج کر رکھا تھا۔ شیخ رشید کی جانب سے متروکہ وقف املاک کو ماضی میں یہ درخواست بھی دی گئی تھی کہ وہ مندر کی جگہ اور اس سے ملحقہ کمروں کی کرایہ داری ان کے نام پر منتقل کر دے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور ریکارڈ کے مطابق شیخ رشید اور ان کے بھائیوں نے کرائے کی مد میں محکمہ اوقاف کو کوئی ادائیگی بھی نہیں کی۔
گزشتہ روز ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک راولپنڈی نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو سات روز میں لال حویلی خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نوٹس کی وصولی کے سات روز کے اندر جائیداد خالی کریں، بصورت دیگر قانون کے تحت بذریعہ پولیس بے دخل کردیا جائے گا۔
متروکہ وقف املاک نے لال حویلی کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے پولیس سے معاونت بھی طلب کی تھی۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ لال حویلی کوئی نائن زیرو نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی حکم نامے کے خلاف پیر کو شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق اپنے وکیل سردار عبدالرزاق کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
شیخ رشید کے وکیل نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ مرکزی کیس عدالت میں چل رہا ہے، 24 تاریخ مقرر ہے، سیاسی انتقام کے لیے بے دخلی کا نوٹس بھجوا دیا گیا، متروکہ وقف املاک سیاسی دباؤ میں آکر لال حویلی پر پولیس کے ذریعے چڑھائی کرنا چاہتا ہے، لال حویلی شیخ رشید کی ذاتی ملکیت ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خورشید عالم بھٹی نے شیخ رشید کی درخواست پر متروکہ وقف املاک کو نوٹس جاری کردیا۔ مقامی عدالت نے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک کو کل طلب کر لیا۔
دوسری جانب متروکہ وقف املاک کے نوٹس پر ردعمل دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ 16 وزارتوں کی تحقیق اور تفتیش میں تمام اداروں کو میرے خلاف کچھ نہیں ملا، اب تین مرلہ کی لال حویلی نکال دی ہے۔ لال حویلی کوئی نائن زیرو نہیں۔

شیئر: