Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی سے خیبر تک الیکشن مہم کا سماں

پانامہ کیس نے (ن) لیگ کو کہیں کا نہ چھوڑا، کوئی نہیں جانتا کہ جے آئی ٹی کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا، 2ماہ اسکی سیاست کیلئے فیصلہ کن ہیں
* * *ارشادمحمود* * *
اگرچہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا لیکن کراچی سے خیبر تک الیکشن مہم کا سماں برپاہے۔پوسٹر، بینر ، اخبارات اور ٹی وی چینلزپرچلنے والے اشتہارات دیکھ کر گمان گزرتاہے کہ الیکشن کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔خاص طور پرعمران خان کی تحریک انصاف کے اسلام آباد کے کامیاب جلسے اور پیپلزپارٹی کے پے درپے جلسوں نے سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج پر پہنچادیا۔الزاما ت اور جوابی الزامات تک بات رہتی تو قابل برداشت تھی‘ اب ہر جماعت کے سرکردہ لیڈر ایک دوسرے کیخلاف ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ کسی مغربی ملک میں ہوتے تو جیل کی ہوا کھاتے۔
تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے رہنماؤں کے مابین گالی گلوچ کا سرشام مقابلہ شروع ہوتا ہے جو رات گئے تک جاری رہتاہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں عمران خان کے جلسے میں عوام بالخصوص نوجوانوں اور معاشرے کے فعال طبقات کی بھرپور شرکت نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ تحریک انصاف ایک مضبوط اور مقبول عوامی جماعت ہے۔یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ الیکشن سے قبل عمران خان عوام کی بڑی تعداد کواپنی طرف ایک بار پھر متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے ۔وہ بہت بڑے مہم جو ہیں ۔ ناکامی تسلیم کرنے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے۔کرکٹ کے میدان میں بھی انہوں جان کھپائی اور فتح ان کا مقدر ٹھہری۔سیاست میں بھی رفتہ رفتہ رنگ جما لیا اور اب اپنی پارٹی کو اس سطح پر لے آئے ہیں جہاں وہ نہ صرف قومی جماعت بن چکی بلکہ حکمران جماعت کے سامنے تن سینہ سپر ہے۔ عمران خان نے اپنے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو گزشتہ6،7 برسوں سے مسلسل حالت جنگ میں رکھا ۔وہ ایک معرکے سے فارغ نہیں ہوتے کہ ان کا قائد انہیں دوسرے محاذ پر الجھا دیتاہے۔ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پی پی پی کی تنظیم اور کارکن بھی مسلسل سرگرم رہتے تھے۔محترمہ انہیں ہر وقت محاذآرائی میں جُتے رکھتی تھیں۔اس کے برعکس آصف علی زرداری نے گزشتہ 7،8 سالوں میں کارکنوں اور لیڈروں کو آسائش طلب بنادیا۔
اگرچہ عدلیہ نے نوازشریف پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔وہ سخت تنقید کی زد میں ہے اور میڈیا میں اسکے حامیوں کی تعداد مسلسل سکڑ رہی ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف ،پی پی پی اور جماعت اسلامی کے مابین بظاہر کوئی مفاہمت نظر نہیں آتی لیکن تینوں جماعتیں ن لیگ کے خوب لتے لے رہی ہیں۔پانامہ کیس نے ن لیگ کوکہیں کا نہیں چھوڑا۔اس کی لیڈرشپ کی اخلاقی ساکھ داغ دار ہوچکی ۔کوئی نہیں جانتاکہ جوائنٹ انویسٹی گیشن کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔خاص طور پر اگلے2ماہ ن لیگ اور شریف خاندان کی سیاست کیلئے فیصلہ کن ہیں۔جوائنٹ انویسٹی گیشن کا عمل کوئی سہل کام نہیں۔اپنے کاروبار اور جائیداد کا حساب کتاب دینا خاص طور پر ان لوگوں کیلئے آسان نہیں جن کی جائیداد اور دولت کے حجم کا شمار ہی نہیں۔ ڈان لیکس کا مسئلہ بھی مسلسل ن لیگ کا تعاقب کررہاہے ۔ڈان لیکس کی رپورٹ کے معاملے پر وزیر داخلہ چوہدری نثار اور آئی ایس پی آرکے سربراہ کے درمیان ناخوشگوار بیانات کا تبادلہ اس امر کی غمازی کرتاہے کہ حکومت اپنے ساتھیوں کو بچانا چاہتی ہے جبکہ ادارے خبر لیک کرنے والوں کا محاسبہ چاہتے ہیں۔
اگلے چند ہفتوں میں ڈان لیکس کا مسئلہ بھی حکومت کیلئے ایک بڑا درد سر بن سکتاہے۔ کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے شریف خاندان کے اندر سیاسی حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نوازشریف کے قریبی ساتھیوں کا اصرار ہے کہ نوازشریف کو کسی بھی قیمت پر پسپائی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔اگر انہیں پس منظر میں جانا بھی پڑے تو مریم نوازشریف کو پارٹی کی قیادت اور حکومت کی زمام کار سونپ دی جائے۔اسکے برعکس ایک دھڑے کی رائے ہے کہ نوازشریف پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ شہباز شریف کے سپرد کردیں ۔چوہدری نثار وحمزہ شہبازشریف پنجاب سنبھالیں ۔کہاجاتا ہے کہ اس فارمولے کو ملک کے طاقتورحلقوں کی بھی حمایت حاصل ہے جو 90 کی دہائی سے نوازشریف کے برعکس شہباز شریف سے تعلقا ت کار رکھنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔چوہدری نثار بھی انکی آنکھ کا تارہ ہیں۔
عمران خان نے گزشتہ کچھ عرصے میں ملکی اداروں اور غیر ملکی طاقتوں کیساتھ تعلقات کار کو بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔ پی ٹی آئی کے سینیئر رہنمائوں کا امریکی اداروں اور عرب ممالک کے نمائندوں سے بھی قریبی رابطہ ہے۔چونکہ یہ لوگ پاکستان کی داخلی سیاست کے ہر فیصلہ کن مرحلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ہر جماعت ان قوتوں کے قریب ہونے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں بھی کہاجاتاہے کہ انہوں نے پاکستان آنے سے قبل بھرپور ہوم ورک کیا۔پاکستان کے اندر مقتدر حلقوں کے ساتھ معاملات بہتربنائے اور عالمی اداروں کو بھی اعتماد میں لیاچنانچہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جارہی ہے۔ (ن) لیگ بھی چاہتی ہے کہ پی پی پی مقابلے میں رہے تاکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا ووٹ بینک تقسیم ہو۔اگر اگلے الیکشن میں پنجاب اور کے پی کے میں پی پی پی مقابلہ کی پوزیشن میں ہوگی تو تحریک انصاف کا ووٹ بینک متاثر ہوگا نہ کہ ن لیگ کاچنانچہ پی پی پی نہ صرف جم کر جلسے کررہی ہے بلکہ آصف علی زرداری کرپشن کے خلاف بھاشن اور قوم کو شفافیت کے فوائد سے آگاہ کررہے ہیں۔ ن لیگ کو بطور پارٹی کے اب کچھ سخت فیصلے کرنا پڑیں گے ۔اسے یہ طے کرنا ہوگا کہ پارٹی میں بدعنوان عناصر کیلئے کوئی جگہ نہیں خواہ وہ کسی بھی عہدے پر ہی فائز کیوں نہ ہوں۔جماعت کے اندر جمہوری روایات اور کلچر کو فروغ دینا ہوگا جہاں لیڈر وں کا محاسبہ کیا جاسکتاہو،ان سے جواب طلبی کی جاسکتی ہو۔

شیئر: