Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی نسل اور تعلیمی دہشت گردی

تعلیم کے نام پر لاکھوں کا روزگاری ریوڑ پالنے اور آئندہ نسلوں میں جہالت بانٹنے پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں
--------------
وسعت اللہ خان
- - - - - - - -
کچھ عرصہ قبل روزنامہ ڈان میں ایک باشعور صحافی نوین منگی کا ایک مضمون شائع ہوا۔اس کے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ ’’ گزشتہ دنوں مجھے ضلع لاڑکانہ کے 3 سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی کارکردگی دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک بوائز پرائمری اسکول کے استاد نے اسکول کے بینک اکاؤنٹ سے مرمت و سہولتوں کی مد میں رکھے بجٹ میں سے11 ہزار روپے کی رقم نکلوا لی۔3 ہزار روپے چیک پروسس کرنے والے محکمہ تعلیم کے کلرک کو دئیے ، 3 ہزار مقامی زمیندار کو دئیے اور 5 ہزار خود رکھ لئے۔یہ اسکول زرعی زمینوں کے درمیان ہے جہاں بجلی نہیں پہنچی۔ان11ہزار روپوں میں 2کمروں کے اس اسکول کے لئے شمسی توانائی کا پینل اور2 پیڈسٹل فین خریدے جا سکتے تھے۔ میں نے ایک بوائز سیکنڈری اسکول میں صبح 9 بجے دیکھا کہ 70 کے لگ بھگ بچے یا تو برآمدے میں گھوم رہے ہیں یا میدان میں بیٹھے گپ لگا رہے ہیں یا پھر موبائل فون پر گیمز کھیل رہے ہیں۔ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں40 سے 50برس پیٹے کے7 اساتذہ تشریف فرما ہیں۔ ان کے روبروطشتریوں میں مٹھائی رکھی ہے اور چپراسی بار بار چائے بنا کے لا رہا ہے۔
جب میں نے پوچھا کہ اسکول کا ٹائم ٹیبل کیا ہے اور کون سا استاد کون سا مضمون پڑھاتا ہے تو ہیڈ ماسٹر نے مجھے سپاٹ نگاہوں سے یوں دیکھا جیسے میں نے کوئی انتہائی جاہل سوال پوچھ لیا ہو۔ان ہیڈ ماسٹر صاحب کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ5ہزار روپے ہے۔ چند دن بعد میں نے اسی اسکول میں دیکھا کہ وہی سب اساتذہ آئے ، اپنی حاضری لگائی اور بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ کے چلے گئے کیونکہ ٹیچرز یونین کے ایک اجلاس میں پہنچنا بہرحال اہم تھا۔ ایک گرلز پرائمری اسکول میں ایک ادھیڑ عمر ٹیچر اس بات پر طیش میں تھی کہ اسکے نام کے آگے غیر حاضر کیوں لکھا گیا۔ ہیڈ مسٹریس اتفاقیہ چھٹی بھی تو لکھ سکتی تھی۔اسی اسکول کی 3 استانیاں رشوت یا سیاسی سفارش کے ذریعے کسی ایسے اسکول میں تبادلے کیلئے کوشاں ہیں جہاں انہیں ہر صبح حاضر نہ ہونا پڑے۔ اوپر سے نیچے تک کسی بھی طرح کی جواب دہی اور باز پرس سے بے نیاز ان اساتذہ کی تنخواہیں 50 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہیں جبکہ اسی علاقے میں ایک فلاحی تنظیم کے تحت چلنے والے اسکول میں اساتذہ کی تنخواہ4ہزار سے 7 ہزار روپے کے درمیان ہے مگر وہ بچوں کو باقاعدگی سے پڑھاتے ہیں۔ تو پھر حیرانی کیوں ؟جب ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق بنیادی تعلیم کے شعبے میں پاکستان144 ممالک میں134ویں اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں104ویں درجے پر ہے۔پاکستان میںکم ازکم43 فیصد اساتذہ نے کوئی پیشہ ورانہ یا ریفریشر کورس نہیں کیا۔سبجیکٹ اسپیشلائزیشن گئی بھاڑ میں ، اساتذہ کو ان مضامین پر بھی پوری دسترس نہیں جو یہ بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ سندھ کے سیکریٹری ایجوکیشن نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو بتایا کہ صوبہ سندھ کے ایک لاکھ پرائمری اساتذہ میں سے60 فیصد غیر تربیت یافتہ ہیں۔ضلع بینظیر آباد ( نواب شاہ ) میں 200 اساتذہ سے جب ان کے مضمون سے متعلق بنیادی معلومات کا ٹیسٹ لیا گیا تو80فیصد اساتذہ ناکام ہوگئے۔اکثریت سیاسی پرچی پر بھرتی ہوتی ہے لہذا وہ کسی بھی طرح کی جوابدہی سے خود کو مبرا سمجھتی ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ ایک بار جو سرکاری نوکری میں آجائے اسے برطرف کرنا جوئے شیر لانا ہے۔
پاکستان کے 14 لاکھ اسکولی اساتذہ کی مناسب تربیت اور جوابدہی کیسے ممکن ہو جب سال کے365 دن میں سے تقریباً100 دن گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات اور قومی و ناگہانی چھٹیوں میں صرف ہو جاتے ہیں۔باقی 265 دن میں سے52 ہفتہ وار چھٹیوں میں ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔باقی213دن میں سے53 دن ووٹرز لسٹ ، الیکشن ڈیوٹی ، وی آئی پی ڈیوٹی ، مردم شماری ، ایمرجنسی کاموں کیلئے طلبی ، پولیو ، ڈینگی اور دیگر بیماریوں کیخلاف آگہی کی مہم اور سرکاری سروے یا جائزوں کی تیاری کی بیگار میں کھپ جاتے ہیں۔باقی رہ گئے160 دن۔یعنی اگر ایک استاد سال بھر بلا ناغہ پوری ایمانداری سے بچوں کو پڑھائے تب بھی وہ 365 میں سے صرف160 دن پڑھا سکتا ہے۔بصورتِ دیگر ہڑتالوں ، اتفاقی چھٹیوں ، بیماری اور حاضری رجسٹر میں غیر حاضری کو حاضری دکھانے کو بھی جمع کرلیا جائے تو سرکاری اسکولوں میں بچوں کو اپنے اساتذہ سے پوری طرح تعلیم شاید50 سے 60دن میسر ہو۔یہ سب ہو رہا ہے سوائے اساتذہ کی تعلیمی استعداد بڑھانے کے فضول کام کے۔
ویسے تو ہم سب رونا روتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا جتنا بجٹ ہونا چاہئیے اس سے کہیں کم ہے لیکن جتنا بجٹ بھی مل رہا ہے اس کا ہم کیا کررہے ہیں ؟ تعلیم کے نام پر لاکھوں کا روزگاری ریوڑ پالنے اور آئندہ نسلوں میں جہالت بانٹنے پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ اگر صرف سندھ کی مثال ہی لے لیں توپچھلے5 برس کے دوران اس ’’ جہالت بانٹ نظام ’’ کو زندہ رکھنے کا بجٹ49 ارب روپے سے بڑھ کر ڈیڑھ سو ارب روپے سالانہ کر دیا گیا ہے۔ بجٹ میں 3 گنا اضافے کے باوجود 46 ہزار پرائمری و سیکنڈری اسکولوں میں سے 99فیصد کسی بھی قسم کی لائبریری و لیباریٹری ،75فیصد پلے گراؤنڈز ،62 فیصد بجلی، 53 فیصد پینے کے پانی ، 46 فیصد بیت الخلا ء اور44 فیصد اسکول چار دیواری سے محروم ہیں۔اگر پاکستان کو سب سے زیادہ آمدنی فراہم کرنے کے دعویدار صوبے کا یہ حال ہے تو پاکستان کے سب سے غریب صوبے بلوچستان کا ذکر ہی بھول جائیں ( ویسے کسی سے بھی پوچھیں تو سندھ پر جان بھی قربان ہے )۔ شاعراحمد نوید کے مطابق:
 اپنی آغوش میں مخلوق کفن پوش لئے
یہ زمیں ہے یا خلا میں کوئی تابوت رواں

شیئر: