Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سُود سے پاک بینکاری، شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن؟

وفاقی وزیر خزانہ نے سُود پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں ’سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں دائر اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ملکی معیشت کی بہتری کے لیے حکومت اہم اقدامات کر رہی ہے، اور ملک میں اسلامی بینکاری کے نظام کو آگے بڑھا رہی ہے۔‘
’ملک میں سود سے پاک بینکاری کے نفاذ کے لیے کام تیز کیا جائے گا۔ اپیلیں واپس لینے کا فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت اور سٹیٹ بینک کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔‘ 
خیال رہے 28 اپریل کو وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام کے خلاف درخواستوں پر 19 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر شرعی قرار دیا تھا۔  
وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ دسمبر 2027 تک معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے۔ 
شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک آف پاکستان اور نیشنل بینک سمیت نجی بینکوں نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔  
حکومتی دعویٰ کتنا حقیقت پسندانہ ہے؟  
سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا ہرگز نہیں ہے کہ سود کے بغیر معاشی نظام چل نہیں سکتا۔‘
’اس کے لیے حکومت پاکستان اور سٹیٹ بینک کو ایک ایسی پالیسی متعارف کروانا ہوگی جس پر عمل درآمد کروایا جاسکے۔‘  
’سود کے بغیر مانیٹری پالیسی کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے، اس میں وقت لگ سکتا ہے اگر حکومت کرنا چاہے تو اس پر شرعی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمل درآمد بھی ممکن ہے۔‘  
ڈاکٹر وقار مسعود نے انڈونیشیا اور ملائیشیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو اس طرح کا نظام وضع کرنا ہوگا جیسے ان دونوں ممالک میں موجود ہے۔‘

شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک سمیت نجی بینکوں نے اپیلیں دائر کر رکھی ہیں (فائل فوٹو: سٹیٹ بینک) 

سابق سیکریٹری خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘مقامی سطح پر اسلامی بینکاری کو فروغ دیں، اس شعبے کو مراعات دے کر فروغ دیا جاسکتا ہے۔‘  
ماہر معیشت ڈاکٹر انیل سلمان کے مطابق ’حکومت کی جانب سے موجودہ حالات میں یہ اعلان عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی ایک حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے۔‘
’زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ آج تک اسلامی بینکاری سسٹم کو اس وقت تک حکومتی سطح پر فروغ نہیں دیا گیا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اگر واقعی اسلامی معاشی نظام کی طرف جانے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کے لیے معاشی نظام کو مقامی سطح پر لین دین اور بین الاقوامی سطح کی معیشت کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔‘
’ابتدائی طور پر مقامی سطح پر عمل درآمد کروانے کے لیے ایک میکنزم متعارف کروانا ہوگا جبکہ بین الاقوامی سطح پر لین دین روایتی سودی نظام کے تحت ہی جاری رکھنا ہوگا۔‘  

ماہرین کہتے ہیں کہ ’پاکستان اگر معاشی نظام کو تبدیل کرے گا تو آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ڈاکٹر انیل سلمان کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک حکومت مقامی سطح پر بھی اسلامی بینکنگ کے نظام کو کنزیومر فرینڈلی اور ایسی مراعات دینے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے صارف اس نظام کی طرف جائے۔‘
’پاکستان میں صرف مذہبی عقائد کی وجہ سے ہی لوگ روایتی بنکنگ نظام کے بجائے اسلامی بینکنگ کی طرف رجوع کر رہے ہیں جبکہ حکومت کا کام ہے کہ صارف کو ایسی مراعات دی جائیں جس سے اس نظام کو فروغ ملے۔‘
آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے کوئی رکاوٹ آئے گی؟  
سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود نے کہا کہ ’پاکستان اگر مقامی سطح پر معاشی نظام کو تبدیل کرے گا تو اس میں آئی ایم ایف یا کسی اور بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔‘
’ہماری 85 فیصد لین دین مقامی سطح کی ہے، اس لیے پہلے مقامی سطح کے نظام کو بہتر کیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی سطح پر لین دین تو فی الحال یوں ہی جاری رہے گی۔‘ 
ڈاکٹر انیل سلمان کہتے ہیں کہ ’اسلامی معاشی نظام کو متعارف کروانا ایک طویل مدتی عمل ہے، ابھی تک اس نظام کو صحیح طریقے سے سمجھا ہی نہیں گیا۔‘  

وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ دسمبر 2027 تک معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جائے (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)

انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان نے ملائیشیا اور انڈونیشیا کے بینکاری نظام کو کاپی کیا ہے لیکن سٹیٹ بینک کے پاس اس نظام کے تحت منافع اور نقصان کا کوئی ایسا ٹول تاحال موجود نہیں جس سے مشارکہ اور مضاربہ کے تحت لین دین کیا جاسکے۔‘  
سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں حکومتی سطح پر 1985 سے سود کے بغیر معاشی نظام کی بحث سے چل رہی ہے۔‘
’اس حوالے سے متعدد کوششیں بھی کی گئیں، تاہم 1999 میں فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل کے باعث معاملہ التوا کا شکار ہوگیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اسلامی معاشی نظام کے حامی رہے ہیں لیکن معاملہ عدالتوں میں جانے کی وجہ سے ملک میں دو نظام آگئے اور اسلامی بینکوں اور روایتی بینکوں کو الگ الگ لائسنسز جاری ہونا شروع ہوگئے۔‘  

شیئر: