Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلامی نظام ، انسانیت کا نجات دہندہ

انسانوں کی میراث اسلام ہی ہے، وہی انسانوں کا بھلا کرسکتا ہے، دنیا کے نظام کو سنوار سکتا اور کرپشن کا خاتمہ کرسکتا ہے
* * *مولانانثاراحمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن* * *
آج ساری دنیا کی قومیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بہ یک زبان اس کی بیخ کنی اور اس کے انسانیت نواز متوازن پیروکاروں کو نہایت مذموم وقابل نفرت شکل میں پیش کرنے کی سعی کررہی ہیں۔ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ آج اپنی پوری قوت وتوانائی اسلام ومسلمان دشمنی میں صرف کررہی اور نت نئی چیزیں ایجاد وگھڑ کر پیش کررہی ہیں تاکہ دنیا کے باشندے اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر متنفر ہوجائیں کہ کوئی ان سے قریب ہونا اور ان کی بات اور سچی دعوت کو سننا بھی پسند نہ کریں۔ آ ج اسی منفی پروپیگنڈوں کی بنیاد پر الیکشن لڑے جاتے اور اسلام دشمنی کے سارے ملک کے عوام کے ذہن کو مسموم کرکے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس منفی پروپیگنڈوں ، مکارانہ منصوبوںاور دروغ گوئیوںپر مبنی سرگرمیوں کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا میں بڑے بڑے محققین ، انصاف پسند باشندے، کھلی ذہنیت رکھنے والے اہل علم ودانشور، خیر وشر کے درمیان امتیاز کرنے کے خواہاں حق کے متلاشی اور چین وسکون وراحت وقرار کے جویا اسلام کا از سر نو مطالعہ کررہے ، کھلے دل وماغ سے اس کی تعلیمات کا جائزہ لے رہے اور ظاہری پروپیگنڈوں سے ہٹ کر مسلمانوں کے طرز عمل کو تول رہے اور ان کے خلاف پروپیگنڈوں کو میزانِ عدل پر رکھ کر تولنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سچائی وانصاف پسندی سے اسلام کا مطالعہ کرنے اور مسلمانوں کو پڑھنے سے انہیں اندازہ ہورہا ہے کہ دنیا کے اندر موجود مذہبوں میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی خصوصیات نمایاں، اس کی تعلیمات منفرد، اس کی اثر انگیزی محیر العقول، اس کی گرفت نہایت مضبوط، اس کی انسانیت نوازی ممتاز، اس کا عدل قابل تقلید ، اس کی فکراور اس کا نظریہ بالکل صاف وشفاف، اس کا ہر حکم فطر تِ انسانی کے مطابق، اس کی ہر بات حقائق وصداقت کی عکاسی کرنے والی اور اس کا پورا نظام نہایت متوازن ہے جس میں کہیںجھول نہیں اور اس میں نہ بے جا شدت ہے اور نہ بگاڑ وخرابی پیدا کرنے والی نرمی، اسلامی نظریہ ہی دنیا کے سارے نظریوں پر غالب ہے، اس کے اندر روحانیت بھی ہے اور مادیت بھی، اس کے اندر سچائی ہے جس میں ظاہری ملمع سازی نہیں ، یہی سچا دین ومذہب ہے جو پہلے والوں کیلئے بھی عظیم پیغام تھا اور آج کے لوگوں کیلئے بھی اور آئندہ آنے والوں کیلئے بھی ہے۔ اس مذہب کا ایک مقصد ہے ، غرض وغایت ہے، دعوت وآواز ہے، قوت وعزت ہے ، قیادت وسلطانی ہے، اخلاق واقدار ہے، تعلیم وثقافت ہے، تہذیب وکلچر ہے، رفعت وبلندی ہے، شفافیت وپاکی ہے۔ انسانیت اگر اپنی نفسانیت اور خواہشات نفسانی سے اوپر اٹھ کر غور کرے اور تعصب وعداوت کی پٹیوں کو آنکھوں سے اتا رکر اسے دیکھے تو اسے بخوبی اندازہ ہوجائیگا کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کتنی عظیم الشان ہے، اس کا پیغام کس قدر ہمہ گیر اور فلاح وسعادت کا ضامن ہے۔ اس کی قدرو قیمت اَدیانِ عالم اور خود ساختہ مذاہب وافکار ونظریات کے درمیان کس قدر بڑھی ہوئی ہے۔
اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ() کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔‘‘(النمل6) « یقینا ہم نے آپ() کو7 آیتیں دے رکھی ہیں، کہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے۔ ‘‘(الحجر 87)۔ اسی لئے ہمارا ایمان وایقان ہے کہ اسلام کا پیغام اس کا نظام ِحیات اس کا طریقۂ کار، اسکی دعوت، اس کی کتاب اور اس کا دستور وقانون ربانی ہے۔
اس کا سرچشمہ اللہ کی ذات اور اس کا ارادہ ہے۔ یہ کسی بادشاہ ، کسی سربراہِ ملک ‘ کسی امیر‘ کسی عوام ، کسی پارلیمنٹ ‘ کسی پارٹی ، جماعت کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام وقانون میں کسی مخصوص قوم وملک اور کسی خاص جماعت ورنگ ونسل کے مفادات کی رعایت نہیں رکھی گئی بلکہ اس میں پورے عدل وانصاف کے ساتھ ساری دنیا کی قوموں اور ہر رنگ ونسل اور ہر زمانہ کے لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانبداری کسی خاص رنگ ونسل اور کسی خاص جنس ونوع اور حسب ونسب سے نہیں بلکہ اس کا سلوک ہر ایک کیساتھ یکساںہے۔ وہ انسانوں کا بھلا ہی چاہتا ہے، برا نہیں۔ وہ خیر ہی کو پسند کرتاہے، شر کو نہیں۔وہ صلاح وبہتر کو ہی پسند کرتا ہے، فساد وبگاڑ کو نہیں، اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت سارے انسانوں کی میراث اسلام ہی ہے، وہی انسانوں کا بھلا کرسکتا ہے، دنیا کے نظام کو سنوار سکتا اور انسانیت کو بدامنی ولاقانونیت اور انتشار وخونریزی سے نجات دلا سکتا ہے، کرپشن کا خاتمہ اور ہر انسانیت سوز حملوں کو دفع کرسکتا ہے۔ چونکہ اسلام اور اس کی تعلیمات ونظام ِحیات ربانی ہے اِس لئے اس میں نہ کسی سے بغض وعناد ہے اور نہ عصبیت وعداوت ہے کہ اس سے امن وامان متاثر ہو،اور باہمی الفت ومحبت میں کمی آئے، ربانی ہونے کی وجہ سے یہ ہر طرح کی غلطیوں ، لغزشوں ، چوکوں اور رکاوٹوں سے پاک ہے۔
اس میں فکری ناہمواری بھی نہیں ہے کہ صدیوں انسانیت اس کی ستم ظریفی سے کراہتی رہے، اس کے نظام میں کوئی کمی زیادتی بھی نہیں کہ جس سے انسانی دماغ لازمی طور پر دوچار ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا مفکر کیوں نہ ہو، اور یہ مخصوص زمانہ یا مخصوص خطہ تک محدود بھی نہیں ، یہ نظام ِظلم وبربریت ، انتقام وتسلط ، کبر وغرور اور نفسانی خواہشات جیسی کمزوریوں سے بھی پاک ہے، جس نے انسانیت کو صدیوں پیسا، اسے اپنا تختۂ مشق بنائے رکھا اور اسے امن وامان او ر سکون وچین سے محروم رکھا اور ان پر ظالم وجابر فرعونی طاقتیں مسلط رہیں، اور انہیں اپنی ہوس کا شکار بناتی رہیں۔اسلام کا نظام کوئی تاریخی ودستوری نظام نہیں جو مخصوص زمانہ ، مخصوص خطہ، مخصوص رنگ ونسل اور مخصوص وقت کیلئے ہو۔سابق میں شریعتیں مخصوص خطہ اور مخصوص قوموں ولوگوں کیلئے آتی تھیں تاکہ ان کے مردہ دلوں کو زندہ کیا جائے اور ان کی آبیاری کرکے ثمر آور بنایا جاسکے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: « اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو(فاطر24)۔ « ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو !صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو، پس بعض لوگوں کو تو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی، پس تم خود زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ( النحل 36)۔
سابق میں مبعوث کئے جانے والے نبیوں نے اپنی قوم اور اپنے علاقہ کی تاریکیوں کو دور کیا اور انسانیت کو نورِ ہدایت سے سرفراز کیا ، گمراہوں اور بھٹکے ہوئوں کو سیدھی راہ دکھائی اور ان کی رہنمائی اپنی زندگی میں کرتے رہے۔ اخیر میں جب اسلام کا سورج طلوع ہو اتو اس نے ساری دنیا کو منور کردیا اور سارے راستے جگمگا اٹھے۔ بلا شبہ دین محمدیؐ اوراللہ تعالیٰ کی کتاب سب سے طاقتور ثابت ہوئی ، اس کی باتیں نہایت محکم ہیں، اس نے سابقہ سارے پیغامات کو اپنے اندر سمولیا اور بکھری قوموں کو ایک لڑی میں پرو دیا ۔ اسلام کے خلاف پوری قوت اور شد ومد کیساتھ پروپیگنڈے کے اس دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کھلے دل ودماغ سے جو اسلام کا مطالعہ کرتا ہے اس کا اسیر ہوجاتا اور اُس کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرکے اس کا متبع بن جاتا ہے۔مشہور جرمن ادیب ’’جوٹا‘‘ نے بجا کہا ہے کہ: ’’اگر اسلام اور اسلامی تعلیمات یہی ہے تو پھر ہم سب مسلمان کیوں نہیں ہوجاتے۔‘‘ کوئی ایسی خوبی نہیں جس کا اسلام نے حکم نہ دیا ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے اسلام نے روکا نہ ہو ،۔کوئی ایسا خیر وبھلائی کا کام نہیں جس پر اسلام نے ابھارا نہ ہواور کوئی ایسا کامیابی کا راستہ نہیں جس کی اسلام نے رہنمائی اور اس کی تربیت نہ کی ہو، اور کوئی ایسی مشکلات وپریشانی نہیں جس میں اس نے انسانیت کی بڑی ہمدردی وخیر خواہی کیساتھ دستگیری نہ کی ہو۔
ذرا آپ موازنہ کریں ان 2 تعلیمات کا جو اسلام نے اور مسیحیت نے پیش کی ہے۔اسلام کی کتابِ دستور میں ہے۔ ’’میرے جانب سے کہہ دو کہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجائو، یقینا اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی بخشش اور رحمت والا ہے۔ ‘‘(الزمر53)۔ اور انجیل میں ہے: بدون سفک دم لا تحصل المغفرۃ۔ ’’خون بہائے بغیر مغفرت حاصل نہیں ہوسکتی۔ ‘‘ ایک جگہ انجیل میںہے: ’’اسی طرح اللہ دنیا کے لئے چاہا اور دنیا سے محبت کی یہاں تک کہ اپنے محبوب وچہیتے بیٹے کو بھی بھینٹ چڑھا دیا تاکہ اس پر ایمان لانے والے ہلاک نہ ہوں، بلکہ انہیں ابدی زندگی مل جائے۔‘‘ بلا شبہ اسلامی تعلیمات عملی تعلیم ہے جس میں اقوام عالم کی تعمیر وترقی کا نمونہ موجود ہے۔ اسلام بھٹکے ہوئوں کو امید دلاتا ہے، مایوس نہیں کرتا، اور اس طرح اسے صحیح رخ پر ڈھالتا اور مسلمان فرد کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور بندوں سے متعلق کیا ہیں۔
ایک دوسرے جرمن مفکر انگرام نے کھلے دل ودماغ سے اسلام کا مطالعہ کیا اور اسلام قبول کرلیا، ان کا کہنا تھا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ومذہب ہے جو نفس وروحِ انسانی کو راحت وسکون پہنچا سکتا اور امن وامان سے بہرہ ور کرسکتا ہے۔ وہی انسان کو ذہنی سکون عطا کرتا اور زندگی کو راحت ،طمانیت بخشتا ہے ۔ آج ہم اسلام کے فرزند ہیںاور ہم اس سے بہت خوش ہیںکہ اُس نے ہماری زندگی کو خوشیوں ، مسرتوں اور سعادت وخوش بختی سے بھر دیا ہے‘‘۔ سابق برطانوی وزیر روبن کک نے ایک مرتبہ کہا تھا: ’’ہماری تہذیب اسلام کا شہر ہے، اسلام ایسا دین ومذہب ہے جو مغرب کے لئے بھلائے جانے کے قابل نہیں ، اسی لئے ہم اپنے تعلقات کو عالم اسلام میں بڑھانے اور ترقی دینے کے خواہش مند ہیں۔ہماری ضرورت ہے کہ ہم اسلامی دنیا سے رابطہ میں رہیں، آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کریں، اس طرح ہم مذہب اسلام کی تہذیب اور اس کے صاف وستھرے کلچر سے مستفید ہوسکتے ہیں‘‘۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغرب اسلام کا مرہون منت ہے، اس نے اسلام سے بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا ہے۔اسلام ہی نے مغربی تہذیب کے مختلف میدانوں کیلئے فکری بنیادیں وضع کیں اور اہم رہنائی کی ہے جسے مغرب نے اپنا یا مگر اسے تبدیل کرکے اسلام نے مغرب کو سائنس، تہذیب وثقافت ، نفسیات اور سماجیات جیسے علوم سے آشنا کیا۔ اس طرح کی سچائی کا اعتراف مختلف ادوار میں مغرب کے اہل فکر ونظر کرتے رہے ہیں اور آج خود مسلمان اپنی تہذیب اپنے پیغام اور اپنے نظام حیات سے نا آشنا ہے اور جس نے ہم سے اپنی تہذیب مستعار لی تھی، اسی کی اندھی تقلید میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نہ اسلام کے رہے اور نہ مغربی بن سکے جبکہ خود مغربی مفکرین میں سے ایک معروف مفکر ’’مارسیل بوازا‘‘ اعلان کررہا ہے کہ آج ضرورت اصلاحات سے متعلق اسلامی فکر کو واپس لانے اور اپنانے کی ہے۔ اس کی تجلی دائمی وابدی ہے، تقلباتِ زمانہ کیساتھ کہنہ وبوسیدہ ہونے والی نہیں ۔ آج بھی مسلمان اپنے دین ومذہب اور اس کی تعلیمات کے ذریعہ دنیا کو امن وسکون ، راحت ومسرت اور سعادت وخوش بختی عطا کرسکتے ہیں۔ضرورت ہمیں اپنے دین ومذہب کو سمجھنے اور اسکے مطابق عمل کرنے کی ہے۔ اے کاش کہ مسلمان اپنی زندگی کو سنوارنے پر توجہ دیں اور دوسروں کیلئے نمونہ بنیں۔

شیئر: