Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیصل آباد میں ٹک ٹاکر کے قتل میں ملوث بھائی کو معافی

قتل کا واقعہ فیصل آباد میں دیال گڑھ کے علاقے میں یش آیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے شہر فیصل آباد میں ٹک ٹاک پر مشہور ہونے والے نایاب علی کو بڑے بھائی نے حسد میں آ کر قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق ملزم تیمور حسن کو بھائی کا قتل کرنے پر والد نے معاف کر دیا ہے۔
فیصل آباد کے تھانہ ملت ٹاؤن کی پولیس کو 10 نومبر کی شام ساڑھے سات بچے پولیس ہیلپ لائن ون فائیو کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ دیال گڑھ کے علاقے میں رسول پورہ پل پر پانچ ڈاکوؤں نے ڈکیتی کے دوران ایک شخص کو قتل اور دوسرے کو زخمی کیا ہے۔
اطلاع ملتے ہی پولیس پارٹی فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچی۔
پولیس نے 16 سالہ نایاب علی کی لاش کو قبضے میں لے لیا جبکہ وہاں موجود بڑے بھائی تیمور حسن کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور وہ خود بھی زخمی حالت میں تھے۔
20 سالہ تیمور نے پولیس کو بتایا کہ نایاب کو کسی نے فون کر کے یہاں بلایا تھا، جب وہ پل پر پہنچے تو دو موٹر سائیکلوں پر سوار پانچ افراد نے اچانک ان پر حملہ کر دیا اور گن پوائنٹ پر اغوا کر کے لے جانے لگے۔
تیمور کے مطابق مزاحمت پر مسلح افراد نے نایاب کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا اور انہیں بھی زخم آئے۔
پولیس نے تیمور کے بیان کی روشنی میں والد محمد عثمان کی مدعیت میں پانچ نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
قتل کی اصل کہانی: 
جب یہ واقعہ پیش آیا تو تھانہ ملت ٹاؤن کے تفتیشی افسر نوید احمد خود بھی جائے وقوعہ پر موجود تھے اور اس واقعے کو نہایت باریک بینی سے دیکھ رہے تھے۔
تیمور کا بیان سننے کے بعد ان کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا اور انہوں نے بغیر کوئی بات کیے تیمور کو حراست میں لے لیا۔ 

پولیس کے مطابق ملزم اپنے بھائی کو رسول پورہ پل پر لے کر گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تیمور کے والد کے لیے یہ صورت حال ناگہانی آفت سے کم نہ تھی کہ ایک بیٹا قتل ہو چکا تھا اور دوسرا پولیس کی حراست میں تھا۔ ان کو یہ محسوس ہوا کہ پولیس بجائے ڈاکوؤں کو پکڑنے  کے دوسرے بیٹے کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔ 
انہوں نے اہل محلہ کو اکٹھا کیا اور تھانے کے باہر لاش رکھ کر احتجاج شروع کر دیا، پولیس کو بالآخر تیمور کو چھوڑنا پڑا۔ 
مقدمے کے تفتیشی افسر نوید احمد نے اردو نیوز کو بتایا ’جب میں نے تیمور کا بیان سنا تو دو سوال میرے ذہن میں آئے جنہوں نے پوری کہانی پر سوال کھڑے کر دیے۔ ایک یہ تھا کہ ڈاکو پستول سے مسلح تھے تو انہوں نے قتل کے لیے چھری کا استعمال کیوں کیا؟ دوسرا یہ کہ لاش گنے کے کھیت سے ملی ڈاکوؤں نے اگر سڑک پر روکا تھا تو ان کو چھپ کے قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تیمور کے بیان پر یقین نہ کرنے کے لیے یہ دو سوال ہی کافی تھے۔‘
خیال رہے کہ نایاب اور تیمور کے والد محمد عثمان ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتے ہیں اور دونوں بیٹے سکول کی تعلیم چھوڑ کر والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ 
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’جب والد اپنے بڑے بیٹے تیمور کو ساتھ لے گیا تو ہمارے لیے صورت حال مشکل ہو گئی۔ پھر ہم نے ایک اور طریقہ سوچا اور والد کو اس بات پر راضی کیا کہ چونکہ تیمور اس قتل کا اکلوتا گواہ ہے لہٰذا اس سے بات چیت کرنا ضروری ہے۔ بھلے آپ خود اس کے ساتھ آئیں، ہم اس کو حراست میں نہیں لیں گے۔‘
یہ بات والد محمد عثمان کی سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے ہامی بھر لی۔ 
اگلے کچھ دن تیمور اپنے والد کے ساتھ تھانے آتے رہے اور تفتیشی افسر کے سوالات کا جواب دیتے رہے۔ کچھ ہی دنوں میں خود والد کو پولیس کے سوالوں سے بے چینی شروع ہو گئی۔ 
ٹک ٹاک پر مشہوری قتل کی وجہ بنی
اسی بے چینی میں والد عثمان نے خود بھی گھر جا کر اپنے طور پر تیمور کو کریدنا شروع کر دیا اور پھر تیمور نے بالآخر اپنے والد کو اصل کہانی سنا ہی ڈالی۔
مقتول نایاب پچھلے ایک سال سے ٹک ٹاک پر بڑے متحرک تھے اور ان کی فین فالوونگ بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ یہ بات والد محمد عثمان کو بہت پسند تھی۔

ملزم تیمور حسن نے والد کو بتایا کہ حسد میں آ کر بھائی کو قتل کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

محمد عثمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم کوئی اتنے امیر لوگ نہیں ہیں۔ میں ادھر ادھر ٹک ٹاک پر دیکھتا ہوں کہ کیسے بچے گھر بیٹھے پیسے کما رہے ہیں اور میرے سب سے چھوٹے بیٹے نایاب کے پاس ٹیلنٹ بھی تھا اور شوق بھی۔ میں نے اسے ایک اچھا موبائل فون، موٹر سائیکل اور دیگر لوازمات لے کر دیے کہ وہ کھل کر ٹک ٹاک بنائے۔‘
’وہ روز مجھے بتاتا تھا کہ آج اس کے کتنے فالورز بڑھے ہیں اور اس نے یہ بھی بتانا شروع کر دیا تھا کہ لوگ اب اس سے حسد بھی کرنے لگے ہیں۔ مجھے لگا کہ یہ صحتمند مقابلے کی فضا ہے۔ اچھا ہے، مقابلے سے اچھا مواد تخلیق ہو گا۔ لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ سگا بھائی ہی حسد کا شکار ہو جائے گا۔‘ 
باپ کے سامنے قتل کا اعتراف ہو چکا تھا۔ محمد عثمان نے اسی وقت اپنے مبینہ قاتل بیٹے کی پہلے عبوری ضمانت کروائی اور پھر پولیس کو بیان دے کر اسے مقدمے میں نامزد کر دیا۔ 
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’تیمور اسی دن سے حسد کا شکار ہو چکا تھا کہ اس کا چھوٹا بھائی ٹک ٹاک پر اتنا مشہور کیوں ہو رہا ہے، اسے ارد گرد کے لوگ جاننا شروع ہو گئے ہیں، گھر میں بھی اس کی بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ موٹر سائیکل اور موبائل لے کر دیے جا رہے ہیں، مجھے یہ سب کیوں نہیں مل رہا۔‘
پھر تیمور نے وہ فیصلہ کر ہی لیا۔ 10 نومبر کو اس نے ایک منصوبہ بنایا اور چھوٹے بھائی نایاب کو ایک جھوٹی کہانی سنائی۔
تفتیشی افسر نوید کے مطابق ’گھر میں نایاب کی ہر بات مانی جاتی تھی۔ اسی بات کا ملزم نے فائدہ اٹھایا۔ اس دن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں انگلینڈ نے انڈیا کو ہرا دیا تھا۔ تیمور نے نایاب کو کہا کہ وہ انڈیا پر لگایا جوا ہار گیا ہے اور ہاری ہوئی رقم دینے جانا ہے۔ باپ سے بہانہ بنا کر اجازت لو۔‘
’نایاب نے اپنے والد کو بتایا کہ ٹک ٹاکرز کا ایک گروپ اس سے ملنا چاہتا ہے، کیا وہ اپنے بھائی تیمور کو ساتھ لے جا سکتا ہے؟ والد نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔‘

پولیس کے خیال میں تیمور کے ساتھ منصوبے میں کوئی اور بھی ملوث ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تیمور نے اپنے بھائی کو حسن چوک کا بتایا تھا۔ اس چوک میں پہنچنے پر اسے ایک کال آتی ہے کہ وہ دیال گڑھ کی طرف آئے۔
پولیس کے خیال میں تیمور کے ساتھ اس منصوبے میں کوئی اور بھی ملوث ہے۔ 
دیال گڑھ کے قریب پہنچ کر تیمور نے ایک پل پر موٹر سائیکل روکی۔ نایاب کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا تھا۔
 تیمور نے دوبارہ فون کان سے لگایا اور بولا کہ پل پر پہنچ گئے ہیں۔ پھر دوبارہ اس کی آواز سنائی دی کہ ’اچھا اس گنے کے کھیت میں آنا ہے؟ ہم آگئے ابھی۔‘
اس نے نایاب کو بتایا کہ وہ لوگ اس کھیت میں ہیں۔ 16 سالہ نایاب بغیر کسی دوسری سوچ کے چل پڑا۔ جیسے ہی وہ گنے کے کھیت میں داخل ہوا تو تیمور نے پینٹ میں لگائی چھری نکالی اور نایاب پر حملہ آور ہو گیا۔ جب تک اسے سمجھ آتی اس کی جان نکل چکی تھی۔
والد محمد عثمان نے تیمور کی ضمانت اس لیے کروائی کہ وہ اسے پولیس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے۔ پولیس کو اس لیے حقائق بتائے تاکہ قانونی کارروائی آگے بڑھا کر ختم کی جا سکے۔ 
پولیس کے مطابق منگل کے روز والد عثمان نے سیشن عدالت میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ وہ اپنے بیٹے پر مقدمہ نہیں چلانا چاہتے اور اسے معاف کرتے ہیں جس پر عدالت نے تیمور کی ضمانت کنفرم کر دی ہے۔ 
 تفتیشی افسر نوید کے مطابق ’والد عثمان نے مجھے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا قتل ہو گیا ہے، دوسرے کو پھانسی نہیں لگوانا چاہتے۔‘

شیئر: