Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرپٹو کرنسی نہ خریدنے پر پروفیسر قتل، پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگا (فوٹو: لنکڈاِن)
پاکستان کے شہر لاہور میں نو مئی کی رات کو فیروزپور روڈ پر روہی نالے کے کنارے ایک لاش دیکھ کر راہگیر اکھٹے ہو گئے اور اور پولیس کو اطلاع کر دی۔ 
پولیس جب موقع پر پہنچی تو لاش کو تحویل میں لے لیا گیا تاہم اسے پہچاننا تقریباً ناممکن تھا۔
لاش کے کپڑوں کے اندر سے بھی کسی قسم کی کوئی شناختی دستاویز نہ ملنے پر جب اردگرد تلاشی شروع کی گئی تو پولیس کے علم میں یہ بات آئی کہ ایم جی کمپنی کی ایک مہنگی گاڑی اس لاش سے کوئی آدھا کلومیٹر دور کھڑی تھی۔ شک کی بنیاد پر گاڑی اور لاش دونوں کو تحویل میں لے لیا گیا۔ 
جلد ہی گاڑی کی ملکیت کے ریکارڈ سے اس کے مالک کی شناخت ایک نجی یونیورسٹی کے پروفیسر سلمان شوکت کے نام سے ہوئی۔
ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس اندھے قتل کا سراغ لگانے کے لیے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں۔  
لاہور پولیس کے انویسٹیگیشن ونگ کے سربراہ کامران عادل نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ ایک مشکل کیس تھا۔ ’جس جگہ پر لاش کو پھینکا گیا تھا وہاں اندھیرا تھا۔ چونکہ روہی نالے کے اردگرد زیادہ تر فیکڑیاں ہیں، اس لیے ہمیں امید تھی کہ پرائیویٹ عمارتوں پر لگے سرویلینس کیمروں کی مدد سے کوئی سراغ مل سکتا ہے۔‘  
اور پھر یہی ہوا کہ دو درجن کیمروں کی 24 گھنٹے کی فوٹیج کو کھنگالا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ 8 مئی کو رات گئے دو گاڑیاں اس علاقے میں داخل ہوئیں۔ ایک گاڑی میں سے لاش نکال کر اسے آدھا کلومیٹر دور پارک کر دیا گیا۔
مقدمے کے تفتیشی افسر عدنان بتاتے ہیں کہ دوسری گاڑی کو ٹریس کرنا ایک اور امتحان تھا۔
’ہمیں سیف سٹی کے کیمروں کی مدد لینا پڑی لیکن مشکل یہ تھی کہ چار بڑی سڑکیں روہی نالے کے سنگم پر آتی تھیں۔ پھر جلد ہی ہمیں اس گاڑی کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ قصور سے لاہور میں ایک روز قبل داخل ہوئی تھی۔ بعد ازاں یہ کرائے کی کار ثابت ہوئی تاہم اس کو کرائے پر لینے والے تک ہم پہنچ گئے۔‘  
پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ کرائے پر گاڑی لینے والا ذیشان اصل ملزم نہیں تھا۔  

اصل ملزم کون تھا؟  

عدالت میں جمع کروائی گئی اب تک تفتیشی رپورٹ کے مطابق اس قتل کا اصل ملزم فراز نامی ایک اے سی سی اے کا طالب علم ہے۔ فراز لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن کا رہائشی ہے۔ وہ اور اس کی بیوی دونوں کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں۔
فراز نے پروفیسر سلمان شوکت سے فیس بک پر دوستی کی اور ان سے دو دفعہ لاہور کے مختلف چائے خانوں میں ملاقات بھی کی۔ اسی دوران فراز نے پروفیسر کو بتایا کہ کیسے وہ کرپٹو کرنسی کی خریداری کرتا ہے اور یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اور اس کے پاس ایسے طریقے ہیں جن کی مدد سے محض کریڈٹ کارڈز کو استعمال کر کے اور بغیر کوئی انویسٹمنٹ کرکے راتوں رات امیر ہوا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اس کام کا ماہر ہے۔
پولیس نے جب ذیشان کو گرفتار کیا تو سب ملزم روپوش ہو گئے۔ فراز تک پہنچے میں پولیس کو بڑا وقت لگا۔

پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

ڈی آئی جی کامران عادل کے مطابق ’ملزمان نے جو دو گاڑیاں استعمال کیں۔ دونوں میں ٹریکر لگے ہوئے تھے۔ ٹریکر کمپنیوں سے سارا ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ ملزمان کی موبائل لوکیشنز بھی حاصل کی گئیں۔ فراز کو اس ڈیٹا کی مدد سے بہاولنگر سے حراست میں لیا گیا۔‘
پولیس کو دیے گئے اپنے اقبالی بیان میں فراز نے بتایا کہ پروفیسر کے پاس چھ سے سات کریڈٹ کارڈز تھے۔ جن کی مالیت 50 لاکھ سے زائد ہے۔  
مقدمے کے تفتیشی عدنان مسعود نے بتایا کہ یہ معلومات ملنے پر فراز نے اپنے گینگ کو اکھٹا کیا۔ اس گینگ کے باقی افراد میں ذیشان، حسن غفور اور احمد اقبال تھے۔  

پروفیسر کو قتل کیوں کیا؟  

پولیس کا ماننا ہے کہ ملزمان کا تعلق بین الاقوامی ہیکروں کے ایک گروپ سے بھی ہے۔ وہ گروپ کریڈٹ کارڈز کے ذریعے کرپٹو کرنسی کی عالمی بلیک مارکیٹ میں خریدوفروخت کرتا ہے۔
جب تیسری دفعہ پروفیسر کو بلایا گیا تو اس وقت چاروں ملزمان اکھٹے تھے۔ انہوں نے پروفیسر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ فوری طور پر اپنے کریڈٹ کارڈز سے کرپٹو کرنسی خریدے تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جس سے معاملات خراب ہوئے۔  
عدنان مسعود کے مطابق ’ شاید پروفیسر سلمان شوکت ان کی باتوں میں آ کر اپنے کارڈز ان کے حوالے کر دیتے لیکن اصل بات یہ تھی کہ پروفیسر کے کارڈز میں رقم نہیں تھی اور وہ اپنا بھرم رکھنا چاہتے تھے۔
ملزمان نے سمجھا کہ شاید پروفیسر کو شک ہو گیا ہے۔ اسی دوران یہ لوگ وہاں سے نکلے اور پروفیسر کی گاڑی میں ہی ان کو ہتھوڑوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔‘ 
قتل کرنے کے بعد ملزمان نے فوری پروفیسر کی تلاشی لی اور کریڈٹ کارڈز نکالے۔ جب انہوں نے یہ کارڈز استعمال کرنے کی کوشش کی تو یہ دیکھ کر ان کے ہاتھ پاوں پھول گئے کہ کارڈز تو خالی تھے۔
ایک کارڈ سے 1500 اور ایک سے 3500 روپے نکلے جبکہ باقی کارڈز یا تو ایکسپائر تھے یا اوور لمٹ۔  
ملزمان نے اس کے بعد تیزی میں پروفیسر کی لاش کو ٹھکانے لگایا اور روپوش ہو گئے۔  
اس گینگ کا چوتھا رکن احمد اقبال اب بھی مفرور ہے۔ جبکہ پولیس اس ہیکر گینگ کا بھی کھوج لگا رہی ہے جس سے یہ لوگ رابطے میں تھے۔  
مقدمے کے تفتیشی کے مطابق تینوں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہوچکا ہے اور وہ تینوں جیل میں ہیں جبکہ جس ہتھوڑے کے وار سے پروفیسر کو قتل کیا گیا وہ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔  
رواں ماہ چھ جولائی کو عدالت نے تینوں ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے جبکہ پولیس مقدمے کا چالان مکمل کرنے اور گینگ کے چوتھے فرد کو ڈھونڈنے کا کام کر رہی ہے۔

شیئر: