Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی استحکام کیا خواب ہی رہے گا؟ ماریہ میمن کا کالم

پی ڈی ایم پرویز الہی کی سربراہی پر پہلے تو تیار تھی مگر دوبارہ ایسا ہی ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
کیا سیاسی استحکام ایک خواب ہی رہے گا؟ کیا ہمیشہ کی طرح سیاسی عدم استحکام معاشی بحران کا پیش خیمہ بنے گا اور دونوں کا امتزاج ہمارے قومی دھارے کو اسی طرح غیر مستحکم رکھے گا؟ کیا کبھی سیاستدان اور ریاست کے دیگر ستون کچھ بنیادی اصولوں پر متفق ہو سکیں گے؟ 
بد قسمتی سے آج کے دن ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہی نظر آتا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی یہ بھی ہے اس نفی کے اثبات میں بدلنے کا کوئی امکان بھی نہیں۔ آج کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں اور اس کی بنیاد پر مستقبل کا اندازہ لگائیں تو عدم استحکام کے علاوہ کوئی صورت نہیں۔ 
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے آخر کار دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی حتمی تاریخ دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی بہت ہی نازک شاخ پر براجمان موجودہ نظام ایک بار پھر ہچکولوں کی زد میں آ گیا ہے۔
نومبر کا ہلچل اور ہیجان سے بھر پور مہینہ گزرنے کے بعد دسمبر میں سیاسی بحران اپنے عروج پر ہے۔ اب یہاں سے دو صورتیں ہیں، یا تو اس الٹی میٹم کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو عام انتخابات کی تاریخ مل جائے گی یا پھر اسمبلیوں کی تحلیل کو روکا جائے گا۔
فی الحال بہت ہی کم امکان ہے کہ حکومت فوری انتخابات پر راضی ہو کیونکہ فوری انتخاب میں ان کو اپنے لیے کوئی چانس نظر نہیں آ رہا۔ اسمبلیوں کو روکنے کی حکمت عملی چوہدری پرویز الہی کے بیانات کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ اب یا تو تحریک انصاف والے ان کو مجبور کر کے اسمبلی کو تحلیل کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے یا پھر دونوں کے راستے جدا ہو جائیں گے۔
پہلی صورت میں دو صوبائی اسمبلیاں انتخابات میں چلی جائیں گی اور دوسری صورت میں ایک بار پھر وزیراعلٰی کا انتخاب اور ایک نئی حکومت بنے گی۔

فی الحال بہت ہی کم امکان ہے کہ حکومت فوری انتخابات پر راضی ہو۔ (فوٹو: قومی اسمبلی)

پی ڈی ایم پرویز الہی کی سربراہی پر پہلے تو تیار تھی مگر دوبارہ ایسا ہی ہو گا اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔ 
یہ بھی ممکن ہے کہ چوہدری پرویز الہی اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر اسمبلی کو بچا لیں۔ جس کا مطلب ہو گا انتخابات تو اپنے وقت پر ہوں گے مگر اگلا سال وفاقی اور صوبائی اختلافات میں گزرے گا۔
مطلب یہ کہ کوئی ایسا منظر نامہ نہیں کہ جس میں سیاسی استحکام کی کوئی صورت ہو۔
اب آتے ہیں انتخابات کی طرف۔ جہاں ایک طرف قبل از وقت انتخابات کی کوشش جاری ہے تو دوسری طرف انتخابات کو پانچ سال کی مدت کے بعد بھی ملتوی کرنے کے ارادے اور خدشے موجود ہیں۔ التوا کی صورت تو پی ٹی آئی کے لیے بالکل ناقابل برداشت ہو گی اور دوبارہ لانگ مارچ اور احتجاج اپنے عروج پر ہوں گے۔
اگر درمیانی صورت دیکھی جائے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے تو بھی انتخابات سے پہلے، اس دوران اور انتخابات کے بعد استحکام کا امکان مخدوش ہے۔ پہلے تو نگران حکومتوں پر اتفاق نہیں ہو گا۔ الیکشن کمیشن پر پہلے ہی عمران خان عدم اعتماد کر چکے ہیں اس لیے انتخابات بھی کشیدگی کے حالات میں ہوں گے۔
سیاسی انجینیئرنگ کے خدشات بھی ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔ پولنگ اور نتائج پر بھی میچ پڑے گا اور الیکشن رزلٹ کے بعد دھاندلی کا شور بھی یقیناً ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی ایک فریق سرے سے نتائج ماننے سے ہی انکار کر دے۔ 

شریف خاندان کے کیس بتدریج ختم ہو رہے ہیں اور نااہلی ختم ہونے کی طرف رجحان واضح ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

یہ تو تھا پارٹیوں اور الیکشن کا منظر نامہ۔ اس کے ساتھ شخصیات کا میچ اس کے علاوہ ہے۔ وقت کا دھارا بدل رہا ہے۔ قانون کی نظر ن لیگ پر مہربان ہے۔ شریف خاندان کے کیس بتدریج ختم ہو رہے ہیں اور نااہلی ختم ہونے کی طرف رجحان واضح ہے۔ اسی ترتیب سے عمران خان کے سکینڈل، کیس اور نااہلی کا بندوبست جاری ہے۔ اگر الیکشن سے پہلے عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کیا گیا تو یہ پی ٹی آئی کے لیے فیصلہ کن موڑ ہو گا۔
وہ کیا راستہ اپنائیں گے یہ تو عمران خان کا فیصلہ ہو گا مگر ابھی تک کے تجربے کے مطابق اس فیصلے سے عدم استحکام کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔ 
قصہ مختصر یہ کہ سیاست کے ہر ممکن منظر نامے کے مطابق استحکام ایک خواب ہی ہے۔ 2022 کا سال اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ہو گا بحران۔ 2023 میں بھی بحران کا حل ہونا تو دور کی بعد، اس میں کمی کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
نہ ہی سیاستدانوں میں کوئی ایسی سوچ نظر آ رہی جو بحران کو آسان کرنے کا سبب بنے۔ اعتماد اور اتفاق کا ایسا فقدان ہے کہ کوئی بھی کسی پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ انتقام اور بدلہ بنیادی محرکات ہیں۔ ایسے ماحول میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی استحکام ایک خواب ہی رہے گا؟

شیئر: