Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اراکین سے بدسلوکی‘، غیرمجاز یوٹیوبرز پر پارلیمنٹ کے دروازے بند

بیان کے مطابق کچھ یوٹیوبرز بغیر اجازت پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے پارلیمنٹ کے احاطے میں ’غیر مجاز‘ سوشل میڈیا انفلوئنسرز، یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
جمعے کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ 23 ​​دسمبر کو پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک پر ’کچھ غیر مجاز یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور دیگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے معزز اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ بدسلوکی‘ کی تھی۔
بیان کے مطابق یہ یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز بغیر اجازت پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہوئے تھے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے  پارلیمانی رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر کو بھی واقعے سے آگاہ کیا ہے تاکہ اس سلسلے میں ان کا موقف حاصل کیا جا سکے۔
پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کا موقف ہے کہ وہ صرف اپنے رجسٹرڈ ممبران (جو پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کی لسٹ میں شامل ہیں) کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے پی آر اے نے یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور دیگر سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ پی آر اے پریس گیلری کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کوئی بھی غیر متعلقہ شخص قومی اسمبلی کے ایوان کی پریس گیلری اور پریس لاؤنج میں داخل نہ ہو۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’صرف ان رپورٹرز، صحافیوں اور دیگر میڈیا اہلکاروں پارلیمنٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت ہو گی جو رجسٹرڈ میڈیا تنظیموں سے وابستہ ہوں اور ان کے پاس اپنے ادارے کے ویلڈ کارڈ موجود ہوں۔‘
’سوشل میڈیا انفلوئنسرز جو ایوان کی کارروائی کی کوریج کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ خود کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) سے رجسٹرڈ کروائیں اور قومی اسمبلی کا سیشن کارڈ حاصل کریں۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کی پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے یوٹیوبرز کے کمیٹی کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
چیئرمین پی اے سی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’وہ یوٹیوبرز جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ویوز لینے کے لیے سوالات کرتے ہوئے کسی کی عزت، قومی سلامتی، پارلیمانی روایات اور صحافتی اقدار کا خیال نہیں رکھتے وہ بڑا مسئلہ ہیں۔‘

شیئر: