Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شیریں مزاری سے فواد چوہدری تک: گرفتاریوں سے کیا ملا؟

ماہرین کے مطابق حکومت کے مخالفین کی گرفتاریوں سے حکومت کو سیاسی نقصان ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ سال اپریل میں پی ڈی ایم حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اب تک متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں کو مختلف مقدمات میں گرفتار اور پھر رہا کیا جا چکا ہے۔
بدھ کو پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہے اور میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
فواد چوہدری سے قبل گزشتہ نو ماہ میں شیریں مزاری، راشد شفیق، شہباز گِل، اعظم سواتی اور پی ٹی آئی کے قریب سمجھے جانے والے صحافیوں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے اس حوالے سے مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایک جمہوری دور حکومت میں مخالفین کی گرفتاریوں سے حکومت کو کیا سیاسی فائدہ ہو رہا ہے؟ 

شیریں مزاری کی گرفتاری و رہائی

گذشتہ سال مئی میں شیریں مزاری کو اسلام آباد میں ڈرامائی انداز میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری اینٹی کرپشن پنجاب نے ستر کی دہائی میں 800 کنال اراضی کی غیر قانونی منتقلی کے مقدمے میں کی تھی۔ ان کی گرفتاری کے بعد حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس وقت کے وزیراعلٰی پنجاب حمزہ شہباز نے اس گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا تھا۔
اسی رات شیریں مزاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہا کر دیا۔ تاہم بزرگ رہنما کی گرفتاری اور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی پر حکومت کو خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

شیخ راشد شفیق کی گرفتاری

گذشتہ سال مئی میں ہی پی ٹی آئی کے اتحادی سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو سعودی عرب سے اسلام آباد پہنچنے پر تحویل میں لے لیا گیا۔ ان پر وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے دوران سعودی عرب میں احتجاج منظم کرنے کا الزام تھا۔

 مئی 2022 میں شیریں مزاری کو اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا تھا۔ (سکرین گریب)

تاہم چند دن بعد اٹک جیل سے ضمانت منظور ہونے پر ایم این اے شیخ راشد شفیق کو رہا کر دیا گیا۔

شہباز گِل کی گرفتاری اور تشدد کے الزامات

اگست 2021 میں سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گِل کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شہباز گِل نے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کے ایک پروگرام میں متنازع گفتگو کی تھی جس کی بنیاد پر ان کے خلاف اداروں میں بغاوت کی کوشش پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ شہباز گِل پر جنسی تشدد کیا گیا۔ تقریبا ایک ماہ بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تاہم ان کا ٹرائل مقامی عدالت میں اب بھی چل رہا ہے۔

اعظم سواتی کی دو بار گرفتاری و رہائی

پی ٹی آئی کے حال ہی میں سینیئر نائب صدر بننے والے سینیٹر اعظم سواتی کو گذشتہ سال 12 اکتوبر کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف ٹویٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم سیل نے گرفتار کیا تھا۔  ایف آئی اے کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق پی ٹی آئی رہنما کو ’آرمی چیف سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز اور دھمکی آمیز ٹویٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘
ضمانت پر رہائی کے بعد انہیں 27 نومبر کو ایف آئی اے راولپنڈی نے مزید متنازع ٹویٹس کرنے پر ایک بار پھر گرفتار کر لیا تھا تاہم چند ہفتوں بعد انہیں حال ہی میں رہائی ملی ہے اور پارٹی میں مزید پذیرائی دیتے ہوئے عمران خان نے انہیں سینیئر نائب صدر کا عہدہ دے دیا۔

اعظم سواتی کو گذشتہ سال آرمی چیف جنرل  باجوہ کے خلاف ٹویٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ (فوٹو: فیس بک پی ٹی آئی )

جمعرات کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کے الزام کے کیس میں جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ 
25 جنوری کو فواد چوہدری کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا اور اسلام آباد کی مقامی عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر انہیں پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

’سیاسی گرفتاریوں سے پی ڈی ایم حکومت کو فائدہ ہوا ہے‘

حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں پر تجزیہ کار ضیغم خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت ملک میں جو سیاسی تقسیم کا ماحول ہے اس میں جو گروپ حکومت کا حامی ہے وہ اس طرح کے عمل سے خوش ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق پی ٹی آئی ارکان کی گرفتاریوں سے پی ڈی ایم کی اپنے حامیوں میں سپورٹ مزید مضبوط ہوتی ہے۔
ضیغم خان کے مطابق ’حکومت کی جانب سے مخالفین کی گرفتاریوں پر میڈیا اور اہل دانش تنقید کرتے ہیں مگر اس سے اسے سیاسی نقصان نہیں ہوتا بلکہ سپورٹ اور مضبوط ہوتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حالیہ گرفتاریوں سے عمران خان اور پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا کیونکہ عام عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
پنجاب اور دیگر علاقوں میں جہاں دھڑے کی سیاست ہے وہاں یہ تاثر کہ اسٹیبلشمنٹ کسی پارٹی کے خلاف ہے سیاسی نقصان کا باعث ہوتا ہے کیونکہ خاموش اور فیصلہ کن اکثریت ایسی جماعت کی حمایت نہیں کرتی۔ اسی وجہ سے 2018 کے انتخابات میں عمران خان اور پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا تھا۔‘

’گرفتاریوں سے حکومت اور سسٹم دونوں کا نقصان ہوا‘

تجزیہ کار محمل سرفراز کے مطابق ’موجودہ حکومت کے مخالفین کی گرفتاریوں سے حکومت کو سیاسی نقصان ہوگا۔ یہ اتنا ہی غلط ہے جتنا پی ٹی آئی دور میں مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا غلط تھا۔‘

اگست 2021 میں شہباز گِل کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’اس سے نہ صرف سیاسی جماعتوں کو نقصان ہوتا ہے بلکہ سسٹم کو بھی نقصان ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دیگر اداروں کے ساتھ الیکشن کمیشن بھی ریڈ لائن بن گیا ہے مگر سیاستدان کیوں اپنی ریڈ لائن نہیں بناتے۔
اسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں پی ٹی آئی لازمی شامل ہو۔ پہلے والے میثاق جمہوریت کی وجہ سے 2008 سے 2013 تک اپوزیشن نے سیاسی حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کی، نئے میثاق جمہوریت سے سسٹم مضبوط ہو گا۔ سیاستدانوں کو آپس میں بیٹھنا چاہیے۔‘

شیئر: