Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکیہ میں زلزلے سے ’عمارتیں چند سیکنڈز میں ملبے کا ڈھیر بن گئیں‘

دہائیوں میں مشرق وسطیٰ کے سب سے تباہ کن زلزلے میں بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ بلند عمارتیں چند سیکنڈز میں ہی ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔
عرب نیوز نے زلزلے میں بچ جانے والوں اور ان پر گزری ہوئی کیفیت کے بارے میں بات کی ہے۔
برجین اور ان کی کزن روجات ترکیہ کے جنوب مشرقی صوبے دیارباقر میں تعطیلات منا رہی تھیں، وہ اپنے گاؤں وان کو لوٹنے والے تھے کہ زلزلہ آگیا۔
پیر کو علی الصبح آنے والے زلزلے سے فٹبالر روجات جس عمارت میں سو رہی تھیں، تباہ ہوگئی۔ برجین کو ملبے سے نکلنے کے لیے روجات کا کئی گھنٹوں تک  انتظار کیا۔
جب روجات کو بچا لیا گیا تو دونوں اپنے گاؤں چلے گئے جہاں دوسرے آنے والے زلزلے سے ان کا مکان بھی تباہ ہوا۔
برجین کا کہنا ہے کہ وہ تباہ شدہ مکان کے سامنے منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ میں بیٹھے ہوئے تھے۔
ترکیہ نے نئے ہفتے کا آغاز ایک تباہ کن زلزلے سے کیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.8 تھی۔
دیارباقر کے ایک سرکاری سکول کے ٹیچر اوزکان کراکوک کو جب زلزلہ محسوس ہوا تو وہ فوراً سکول کی جانب بھاگ گئے۔ ان کا سکول بگلر ضلع میں ہے جو زلزلے سے شدید متاثر ہے۔
’میں سیرانتیپ ضلع میں رہتا ہوں جہاں بگلر کے مقابلے میں عمارتیں نئی ہیں اور یہاں زیادہ نقصان بھی نہیں ہوا۔ لیکن سکول کی عمارت کے قریب ایک آٹھ منزلہ عمارت تھی جہاں 200 سے زیادہ لوگ رہ رہے تھے۔ وہ سیکنڈز میں ڈھیر ہو گئی۔‘
وہ اب اپنے طلبہ کی صورتحال کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ملبے تلے دبے افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

زلزلے کے بعد دیارباقر کی گلیاں اور سڑکیں لوگوں سے بھر گئی ہیں اور موسم کی شدت سے بچنے کے لیے ان کے پاس مناسب کپڑے بھی نہیں رہے۔
بیریک دیمیرل سو رہی تھیں جب زلزلہ آیا۔ وہ زلزلے کے فوراً بعد ہی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ گھر سے نکلیں۔
’ہم کئی گھنٹوں تک باہر تھے لیکن شدید سردی کے باعث گھر لوٹنا پڑا۔‘
حاطے صوبے کے شہر اسکندرن کے رہائشی مثل اویار کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں ایک ہسپتال تباہ ہوگیا جس میں عملے کے اراکین اور مریض بھی موجود تھے۔
جدید معیار کے مطابق عمارتوں کی تعمیر کے باجود بھی متعدد عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔

زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

زلزلے کے دوران اسکندرن کی بندرگاہ کو بھی نقصان پہنچا۔
مثل اویار کا کہنا ہے کہ ’علاقے میں ہمارے تمام گرجاگھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ پولیس کا اہل کار جو سکیورٹی پر معمور تھا وہ بھی پتھر لگنے سے جان سے گیا۔ لوگوں نے آفٹر شاکس سے بچنے کے لیے گاڑیوں میں پناہ لی۔‘
کہرامنمارس صوبے کی اپوزیشن پارٹی ریپبلکن پیپلز کے ڈپٹی علی اوزتنک نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری مقامی ادارے اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے لوگوں کو ریسکیو کر رہے ہیں اور ان کو ضرورت کی چیزیں فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکام پر زور دیا تھا کہ عمارتوں کے تحفظ سے متعلق حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔

شیئر: