Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’زلزلے سے بچ گئے سردی مار دے گی‘، ترکیہ، شام میں 16 ہزار سے زائد ہلاکتیں

لوگ ابھی تک ان عمارتوں کے قریب موجود ہیں جہاں ان کے پیارے دب گئے تھے (فوٹو: روئٹرز)
ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 16 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ تاحال ملبے تلے دبے افراد کے بچنے کی امیدیں بھی دم توڑتی جا رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات بھی لوگ ملبے کے ان ڈھیروں کے قریب موجود رہے جہاں ان کے پیارے دب گئے تھے۔ اسی طرح ملک کے جنوبی حصے کے وسیع علاقے میں بڑی تعداد میں متاثرین پناہ اور خوراک بھی تلاش کرتے رہے اور انہیں سخت سرد موسم کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔
امدادی کارکنوں نے بدھ کو بھی چند لوگوں کو ملبے سے زندہ نکالا تاہم ساتھ ہی لوگوں کی جانب سے یہ شکایت بھی سامنے آ رہی ہے کہ ملبے کو ہٹانے کے لیے ضروری سامان کی غیرموجودگی اور درست تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو نہیں نکالا جا سکا۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ مبلے میں دبنے والے کئی لوگوں کی رونے کی آوازیں آتی رہیں مگر ضروری سامان کی کمی کی وجہ سے ان کو نہیں نکالا جا سکا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام ابھی تک تباہ ہونے والی عمارتوں کے صرف دو تین فیصد حصے تک ہی پہنچ پائے ہیں۔
ملاتیہ شہر میں برف سے ڈھکی مہندم شدہ عمارت کے قریب ایک خاتون ابھی تک موجود ہیں جس کے مبلے کے نیچے ان کے رشتہ دار بچے دبے ہوئے ہیں۔
صبیحہ الینک نامی خاتون کا کہنا تھا کہ ’ریاست کہاں ہے۔ یہ لوگ دو روز سے کہاں ہیں۔ ہم ان کی منتیں کر رہے ہیں۔ ہم ان کو نہیں نکال سکتے، آؤ مل کر نکالتے ہیں۔‘

متاثرین امدادی کارروائیوں میں سستی کا شکوہ کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انتکیہ کے علاقے میں ہسپتال کے باہر درجنوں لاشیں ایک قطار میں پڑی ہیں جن میں سے کچھ کمبلوں کے ساتھ ڈھانپا گیا ہے جبکہ کچھ پر بیگز چڑھائے گئے ہیں۔
ملبے سے نکالی جانے والی 64 سالہ خاتون میلیک کا کہنا تھا کہ ’مجھے کوئی امدادی ٹیم دکھائی نہیں دی۔ ہم زلزلے سے تو بچ گئے ہیں مگر بھوک اور سردی سے مر جائیں گے۔‘
کچھ ایسے ہی مناظر جنوبی شام میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں کیونکہ وہ بھی پیر کو آنے والے شدید زلزلے کی لپیٹ میں آیا تھا۔

صدر طیب اردوغان نے اعتراف کیا ہے کہ زلزلے کے بعد حکومت کا ابتدائی ردعمل ناکافی تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اقوام متحدہ میں شام کے مندوب نے اعتراف کیا ہے کہ دماسکس کے علاقے میں ’حکومت کو ضروری سامان کی کمی‘ کا سامنا ہے۔
انہوں نے اس صورت حال کا الزام مغربی ممالک کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کو قرار دیا۔
اسی طرح ترکیہ کے صدر طیب اردوغان کے صدر نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بحرانی کیفیت کے بعد ابتدا میں حکومت کی جانب سے کیا جانے والا ردعمل ناکافی تھا تاہم انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کل اور اس کے بعد آنے والے وقت میں بہتر ہو جائیں ہمیں ایندھن کے کچھ مسائل کا سامنا ہے لیکن ہم ان پر بھی قابو پا لیں گے۔‘

’مرنے والوں کی تعداد 20 ہزار تک جا سکتی ہیں‘


عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار تک جا سکتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

اگرچہ ترکیہ اور شام میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں تاہم ہلاکتوں میں مزید اضافے کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
اسی خطے میں 1999 میں آنے والے ایسے ہی زلزلے کے نتیجے میں کم سے کم 17 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے سے ایک کروڑ 35 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ساڑھے چار سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو ادینا سے دیاربیکر تک پھیلا ہوا ہے۔
اسی طرح شام میں زیادہ تر ہلاکتیں حماہ کے علاقے میں ہوئیں جو زلزلے کے مرکز سے دو سو 50 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
 

شیئر: