Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

27 سے 27 تک: ’امریکی سازش‘ کا ذکر کم کیوں؟

عمران خان نے گزشتہ برس 27 اپریل کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں کاغذ لہرا کر کہا تھا کہ ان کے خلاف بیرونی سازش ہو رہی ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ ان کے خلاف بیرونی سازش ہو رہی ہے۔ 
جب اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں تو عمران خان نے بھی جارحانہ انداز اختیار کر لیا۔ اس وقت انہیں یقین تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی۔
گزشہ برس آج ہی کے دن عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں ایک بڑا جلسہ کیا تھا۔ جلسے سے قبل انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے کارکنوں کو آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے اور بیرونی سازش کے بارے میں اہم انکشاف کریں گے۔ 
پھر یہی ہوا، عمران خان نے جلسے سے طویل خطاب کیا۔ لگ بھگ پونے دو گھنٹے کی تقریر میں عمران خان نے کم و بیش وہی باتیں کیں جو وہ اپنی تقاریر میں اکثر دہراتے رہتے ہیں لیکن ایک چیز نئی تھی۔  
عمران خان نے اس جلسے میں ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس جو ثبوت ہیں، ہر چیز کو میں ظاہر کر رہا ہوں۔ میرے پاس ایک خط ہے جو ثبوت ہے۔ ہمیں دھمکی دی گئی ہے لیکن ہم قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘ 
یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد انہوں نے وہ کاغذ لیپٹ کر اپنی واسکٹ کی اندرونی جیب میں ڈال دیا تھا۔ 
انہوں نے خط کے ذکر کافی مبہم انداز میں کیا اور پھر کہا کہ ’میری سب سے بڑی کوشش ہوتی ہے کہ میرے ملک کے مفادات کی ہمیشہ حفاظت کی جائے۔ میں کوئی ایسی بات نہ کر دوں کہ میرے ملک کو نقصان نہ پہنچے۔ اس لیے میں نے آپ کے سامنے پوری بات نہیں کی۔نہیں تو میں وہ بتا بھی سکتا تھا۔‘ 
عمران خان کے اس بیان کے بعد اس مبینہ خط پر بات ہونا شروع ہوئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اسے بے بنیاد قرار دیا لیکن عمران خان کا اصرار تھا کہ یہ حقیقت ہے۔ 
اس کے کچھ دن بعد ایک سائفر کا ذکر چلنے لگا جس کے بارے میں عمران خان نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے انڈر سیکریٹری ڈونلڈ لُو نے یہ سائفر پاکستانی سفیر کو دیا تھا۔ 
بعدازاں دسمبر میں ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ سائفر کی ایک کاپی جو ان کے پاس تھی وہ غائب ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا ’اگر تو وہ ڈی کلاسیفائی ہے تو اس پر چھاپہ مار کر کیا کرنا ہے۔ ایک میرے پاس تھا اور وہ غائب ہو گیا۔ کہیں گم ہو گیا، مجھے نہیں پتا۔‘ 
سائفر کا معاملہ پھر قومی سلامتی کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی زیر بحث رہا۔ 
 تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی امریکی سازش کے بیانیے کو کافی سرگرمی سے پروموٹ کیا جاتا رہا۔ بعدازاں جب پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت بنی تو اسی مبینہ امریکی سازش کے بیانیے کی بنیاد پر عمران خان اسے ’امپورٹڈ حکومت‘ قرار دیا۔ 
اس کے بعد ’امپورٹڈ سرکار‘ کی اصطلاح حکومت مخالف حلقوں میں زبان زدِعام ہو گئی۔ 

سازش کے بیانیے میں تبدیلی 

عمران خان اقتدار سے الگ ہونے کے بعد امریکی سازش کا جس یقین کے ساتھ اظہار کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی بھی دیکھی گئی۔ فروری 2023 میں انہوں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے قدرے مختلف موقف اپنایا۔ 

عمران خان اپنے جلسوں میں حکومت پر غیر آئینی اقدامات کا الزام عائد کرتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کا اب کہنا تھا کہ وہ امریکہ مخالف نہیں ہیں۔ ’جو بھی ہوا، اب جیسے چیزیں سامنے آ رہی ہیں، امریکہ نے پاکستان سے نہیں کہا تھا بلکہ بدقسمتی سے نئے شواہد کے مطابق یہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے دراصل کسی طریقے سے امریکیوں سے کہا کہ میں امریکہ مخالف ہوں۔ تو یہ وہاں سے امپورٹ نہیں ہوا بلکہ یہاں سے ایکسپورٹ ہوا۔ ‘ 
 اسی انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ ’یہ ماضی کا قصہ ہو چکا ہے، اب ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔‘ 
اب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان اپنے جلسوں، پریس کانفرنسوں اور انٹرویوز میں امریکی سازش کی بات اس شدومد سے نہیں کرتے۔ وہ موجودہ حکومت کو مہنگائی،انسانی حقوق اور آئین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ 
عمران خان نے دو دن قبل 25 مارچ کو مینار پاکستان لاہور کے احاطے میں پارٹی جلسے سے خطاب میں بھی امریکی سازش کا ذکر نہیں کیا۔ 
اب سوال یہ ہے کہ ٹھیک ایک برس قبل پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں کاغذ لہرانے سے شروع ہونے والا امریکی سازش کا بیانیہ کہاں ہے اور اس سے عمران خان کو کیا فائدہ یا نقصان ہوا۔ اس حوالے سے اردو نیوز نے سیاسی امور کے ماہرین اور سنیئر تجزیہ کاروں کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

عمران خان نے فروری 2023 میں کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے امریکہ کو باور کرایا کہ میں ان کا مخالف ہوں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر صحافی  وجاہت مسعود کا خیال ہے کہ امریکی سازش کے بیانیے نے عمران خان کو ابتدائی طور پر سیاسی طور پر مضبوط ضرور کیا تھا۔ ’ان کے فالورز نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔‘ 
انہوں نے کہا ’پاکستان کے عوام کا ویسے بھی امریکہ کے ساتھ لَو ہیٹ ریلیشن ہے۔ انہیں امریکہ کو گالی دینا اور اسی کا ویزہ لینا دونوں پسند ہیں۔‘ 
’اب جب تک امریکی سازش کی بات چل سکتی تھی، چلائی گئی لیکن عمران خان کو یہ بھی اندازہ تھا کہ سیاست بہرحال کسی طریقے سے ہی چل سکتی ہے۔‘ 
’اس کے بعد عمران خان نے جنرل باجوہ کو نشانے پر رکھ لیا، پھر پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی سے ہوتی ہوئی ان کی تنقید آئی جی پولیس اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے۔‘ 

’عمران خان کو لگتا ہے ان کی سیاست ختم ہو چکی‘ 

عمران خان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے وجاہت مسعود نے کہا کہ ’وہ اب فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ اگلے پانچ برس بھی وہ حکومت کرنا اور جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ اب انہیں لگتا ہے کہ ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ ان کی پارٹی کے بکھرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جو الیکٹ ایبلز ان کے ساتھ 2011 میں جوڑے گئے تھے وہ کسی وقت اشارہ ملتے ہی پیپلزپارٹی وغیرہ میں چلے جائیں گے۔‘ 
امریکی سازش کے بیانیے کے بارے میں موقف میں تبدیلی پر عمران خان کی پارٹی کے اندر سے ردعمل کیوں نہیں آیا؟ اس سوال کے جواب میں وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اس میں ایک طرف تو الیکٹ ایبلز کی بڑی تعداد ہے جو اپنا موقف بدلنے میں دیر نہیں لگایا کرتی جبکہ دوسرے لوگ وہ ہیں جو ان کے فین ہیں۔ ایک کلٹ ہے، گزشتہ 25 برسوں میں انہیں نواز شریف اور بے نظیر کو گالیاں دینا سکھایا گیا ہے، وہ لوگ اپنے قائد کی بات پر کیسے ردعمل دیں گے۔‘

پی ٹی آئی کے جلسوں میں الیکشن کمیشن کے سربراہ پر پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخاب نہ کرانے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ارشاد احمد عارف کا موقف اس کے برعکس ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے بنیادی طور پر اپنے امریکی سازش والے بیان سے یوٹرن نہیں لیا۔ 
ارشاد عارف کے مطابق ’امریکی سازش یا سائفر کی بات کر کے عمران خان نے سیاسی فائدہ ضرور اٹھایا کیونکہ عوام میں یہ احساس بہت پہلے سے ہے کہ دنیا میں اہم فیصلے امریکہ کی آشیرباد، اس کے اشارے یا اس کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ عمران خان نے ان فیلنگز کو کیش کرایا۔‘ 
انہوں نے کہا ’دیکھیں سائفر تو تھا۔ اس کی بیانیے کی مخالفت جو کر رہے تھے ، وہ بھی ماضی میں امریکہ سے متعلق ایسی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہاتھی(امریکہ) میرا خون چاہتا ہے۔ پھر 1999ء میں نواز شریف نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد یہی موقف اپنایا کہ انہیں امریکہ نے ایٹمی دھماکے کرنے کی سزا دی ہے۔‘ 

’عمران خان نے اپنا بیانیہ نہیں بدلا‘ 

عمران خان نے بعد میں تبدیلی کی اور کہا یہاں سے امریکہ کو فیڈ کیا گیا، کیا یہ یوٹرن نہیں تھا؟ اس سوال کے جواب میں ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے اپنا موقف نہیں بدلا۔ انہوں نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ معاملہ اِنی شیئیٹ یہیں سے ہوا تھا۔‘ 
’جنرل باجوہ نے امریکیوں کو یہ باور کرایا کہ عمران امریکہ مخالف ہے۔ اس کی دلیل موجود ہے کیونکہ جب عمران خان نے روس کے دورے کے بعد اس جنگ میں غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا تو جنرل باجوہ نے ایک تقریر کر دی۔‘ 
’روس کا دورہ جنرل باجوہ کی مشاورت سے ہوا تھا لیکن جنرل باجوہ نے بعد میں بیان دے کر ریاستی پالیسی سے انحراف کر دیا تھا۔‘ 
ارشاد عارف سمجھتے ہیں کہ جب تک عوام کو یقین نہیں ہو جاتا کہ امریکہ اہم فیصلوں میں مداخلت نہیں کرتا، اس وقت تک پاکستان میں امریکہ مخالف بیانہ مقبول ہوتا رہے گا۔
’اس وقت عمران خان کی مقبولت میں ان کا حصہ صرف 40 فیصد ہے باقی سب موجودہ حکومت کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔‘ 

شیئر: