Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سارے وسائل خرچ ہوجائیں تو بھی الیکشن کروانے چاہییں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ ’اگر الیکشن پر سارے وسائل خرچ ہوجائیں تو بھی الیکشن کروانے چاہییں۔‘
منگل کو پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر نے کیس کی دوسری سماعت کی۔
بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے ججز سمیت قومی خزانے سے تنخواہ لینے والوں کی تنخواہوں پر کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک بار پانچ فیصد تنخواہ کی کتوٹی کر لی جائے تو الیکشن کے لیے فنڈز میسر آ سکتے ہیں۔

حکومت کا اعتماد اور عدالت کا موقف ماننے سے انکار

سماعت شروع ہونے سے قبل خلاف معمول حکومتی حکام خاصے پُراعتماد نظر آئے۔ وزیرقانون بھی سماعت سننے کے لیے سپریم کورٹ آئے اور صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میں نے یکم مارچ کو ہی کہہ دیا تھا کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت کسی فیصلے کے پابند نہیں ہوتا۔‘ 
سماعت شروع ہوئی تو فاروق ایچ نائیک نے کیس میں فریق بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے۔ گزشتہ روز کے عدالتی حکم نامے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو دیکھنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’قانون کی بالادستی اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے۔ گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں۔ آپس میں برداشت، تحمل اور امن وامان کی صورتحال ہونی چاہیے۔‘ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمیں قانونی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔ سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے۔ فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لے کر جاتے ہیں۔ کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلا میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ آئین زندہ دستاویز ہے۔ اس کی تشریح زمینی حالات پر ہی مبنی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ (فوٹو: سپریم کورٹ)

وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ’تعین کرنا ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں جمہوریت اور ملک کے لیے کیا بہتر ہے۔ سیاسی جماعتیں متعلقہ فریق ہیں، انہیں لازمی سنا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ ’آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لے جاتے؟‘ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ یکم مارچ کے حکم میں دو ججز نے فیصلہ دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس فیصلے نے چیف جسٹس کے از خود نوٹس پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ کیس ہے۔ یکم مارچ کے فیصلے پر میرا جواب ہے کہ قانون صدر کو اختیار دیتا ہے وہ تاریخ دیں۔ اگر آپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ  آگے کرسکتا ہے یا  نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔‘ 
اٹارنی جنرل نےکہا کہ ’عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔ عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ’اس وقت مقدمہ تاریخ دینے نہیں منسوخ کرنے کا ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔ دو معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے۔ ان دو ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں۔ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کے فیصلے کے حوالے سے اعتراضات مسترد کر دیے تو اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور  بینچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔‘

 یکم مارچ کا فیصلہ، عدالت کا اندرونی معاملہ ہے: جسٹس جمال   

جس بنیاد پر اٹارنی جنرل اپنا کیس لڑنا چاہ رہے تھے کہ دو ججز کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کا یکم مارچ کے فیصلے کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس نے ان کی ساری تیاری ہی الٹا کر رکھ دی۔ 
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’یکم مارچ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ بتا دیں کہ کیا آئین 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ’معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر نے کیس کی سماعت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے لوگوں کا سوچیں‘

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ 
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے کہا کہ ’آپ کی اعلٰی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے۔ کیا  آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے۔ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے۔ معاشی حالات دیکھیں، آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے اُن لوگوں کا سوچیں۔ تحریک انصاف اگر پہل کرے تو ہی حکومت کو کہیں گے۔‘
وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا، انتخابات عوام کے بنیادی حق کا معاملہ ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن 90 دن میں الیکشن شیڈول دینے کا پابند ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ  بدقسمتی سے کسی کو کوئی شک نہیں کہ 90 دن میں انتخابات اب نہیں ہو سکتے۔ سوال یہ ہے کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا تھا؟ آئین کی تو پاکستان میں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ بڑھانے کی اتھارٹی کس کی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے یا نہیں؟

ایک فرد کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار پر پارلیمنٹ کو نظرثانی کرنی چاہیے: جسٹس جمال مندوخیل

وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلٰی منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ  تحریک عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک فرد کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار پر پارلیمنٹ کو نظرثانی کرنی چاہیے۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو بدل دے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

 انتخابات ممکن نہیں تھے تو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا: جسٹس منیب

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کر سکتا تھا۔ تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔ وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کر سکتا ہے۔ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت ہی حکم دے سکتی ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو تو ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن ازخود انتخابات ملتوی کرنے کا حکم جاری نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن چھ ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو چھ سال بھی کر سکے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انتخابات آگے کون لے جاسکتا ہے اس پر آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہوگا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا؟

پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انتخابی اخراجات، چیف جسٹس کی ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز 

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی؟ اخبار میں وزیراعظم کا بیان پڑھا تھا۔ وفاقی حکومت کہتی ہے مارچ تک 500 ارب ٹیکس جمع کیا۔ حیرت ہے کہ انتخابات کے لیے 500 میں سے 20 ارب نہیں دیے گئے۔ سیکریٹری خزانہ نے تو کہا الیکشن کے لیے فنڈز نہ ابھی ہیں نہ آگے ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ الیکشن تو ہوں گے ہی نہیں، حکومت کا کوئی سیکریٹری ایسا فنٹاسٹک بیان کیسے دے سکتا ہے؟
اس موقع پر چیف جسٹس نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 20 ارب کے لیے کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ  فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کے اخراجات پارلیمنٹ کی منظوری سے خرچ ہوتے ہیں۔ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے۔ نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے۔ سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سیکریٹری خزانہ منظور کردہ  بجٹ سے ہٹ کر فنڈز کیسے دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران کی حقیقت سے نظر نہیں چرائی جا سکتی۔ بحران سے نمٹنےکے لیے قربانی دینا ہوتی ہے۔ پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

’پنجاب میں امن و امان کی صورت حال دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہے‘

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے التوا کے حوالے سے کوئی ڈیٹا نہیں دیا۔ صرف صوبوں میں کی جانے والی کارروائیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے۔ پنجاب میں اب تک صرف 61  آپریشن ہوئے، سندھ میں367 ، خیبر پختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورت حال دیگر صوبوں سے بالکل مختلف اور تسلی بخش ہے۔ ترکیہ میں زلزلہ متاثرہ علاقوں کے علاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔

ایبسلوٹلی ناٹ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ’ایبسلوٹلی ناٹ‘، چیف جسٹس نے کہا کہ ایبسلوٹلی ناٹ تو آپ نے اصل میں کسی اور کو کہا تھا۔
لیپ ٹاپ کے لیے دس ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے بیس ارب کیوں نہیں؟ جسٹس منیب
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا ہے۔ گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنج ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دفاع وکلاء کریں گے۔ حکومت سے فنڈز اور سکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پولنگ سٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ فنڈز کے حوالے سے کل سیکریٹری خزانہ سے معلومات لے کر تفصیل دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 170 ارب حکومت نے وصول کرنے تھے۔ اضافی وصولی کے لیے ضمنی بجٹ دیا گیا۔ جو معلومات ابھی دے رہا ہوں وہ میری سمجھ کے مطابق ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا مزید اقدامات کر کے 20 ارب اضافی نہیں لیے جا سکتے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہو گا۔ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کے لیے مشکل کام ہے؟ کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ صوبوں کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2008 میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے کہا تھا الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر ایسا کہا ہوگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ معاملہ ترجیحات کا ہے۔ لیپ ٹاپ کے لیے 10 ارب روپے نکل سکتے ہیں تو الیکشن کے لیے 20 ارب کیوں نہیں؟
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے بھی اراکین کو فنڈز دیے گیے ہیں۔ اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کے لیے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آئین کے تحت سپلیمنٹری گرانٹ جاری کی جا سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیار کا نہیں وسائل کی کمی کا ہے۔

جنرل ضیا کی وفات پر الیکشن تاخیر سے ہوئے: اٹارنی جنرل

اکتوبر میں عام انتخابات کی بات ہوئی تو جسٹس منیب نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سوچا ہو تمام اسمبلیوں کی مدت اکتوبر میں مکمل ہو جائے گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ شہداء اسی دھرتی کے سپوت ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی کیا کر سکتا ہے کہ اپنی جان کی قربانی دے۔ افواج کے خاندانوں کا حوصلہ ہے کہ اپنے بچوں کو مورچوں میں بھیجتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ  فوج کی نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوتے ہیں۔ کیا یہ ایسا مسئلہ ہے جسے حل نہیں کیا جا سکتا؟ دہشت گردی کا مسئلہ نوے کی دہائی سے ہے۔ کیا نوے کی دہائی میں الیکشن نہیں ہوئے؟ کئی سیاسی لیڈرز کی جانیں قربان ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کی سربراہ کی شہادت بڑا سانحہ تھا۔ ان تمام حالات کے باوجود انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی انتخابات ہوئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1988ء میں انتحابات اگست میں ہونے تھے۔ جنرل ضیاء کی وفات کے بعد الیکشن نومبر میں ہوئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 1988ء میں الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کس نے کیا تھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قائم مقام صدر نے الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1988ء میں بھی فنڈز کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے سے خلاء پر کیا تھا۔

’جب الیکشن ہوں تو فوج کا کام ہے سکیورٹی فراہم کرے‘

جسٹس منیب نے کہا کہ کیا ہم سمجھیں قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے؟ کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے؟ فوج کا کام سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ جب الیکشن ہوں تو فوج کا کام ہے سکیورٹی فراہم کرے کیا۔ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرنا چاہیے تھا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی اختیار استعمال کرنے میں سوال ہو تو معاملہ عدالت ہی آتا ہے۔ اس سوال کا بہتر جواب الیکشن کمیشن کے وکیل دے سکتے ہیں۔ 2008ء میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی نئی تاریخ خود دی تھی۔ کسی جماعت نے الیکشن کی نئی تاریخ کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ محترمہ کی شہادت الیکشن ملتوی کرنے کی بڑی وجہ تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کی سیاسی قیادت نے اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔
جسٹس منیب نے کہا کہ الیکشن کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں کمیشن کو تیار رہنا چاہیے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر نے خود کہا تھا کہ چار ماہ میں الیکشن کروا سکتے ہیں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کے اُس وقت کے حالات اور اب کے حالات میں فرق ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ حکومت چلانا الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ الیکشن کمیشن وہ ہی وجہ بتا سکتا ہے جو اس کے احکامات میں لکھی ہوئی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔ کل اٹارنی جنرل اپنے دلائل جاری رکھیں گے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل بھی عدالتی سوالات کے جواب داخل کریں گے۔ 

شیئر: