Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حقائق ۔۔۔۔دوسرا رخ

تارکین اپنے کاغذات کو قانونی شکل دینے میں کامیاب ہوں اور کسی بھی طرح لاقانونیت کی سزا کا شکار نہ ہوں
 - - - - - - - - - - - -
محمد مبشر انوار
 - - - - - - - - - -
سعودی عرب گزشتہ 10 سال سے اپنے شہریوں کو قومی معیشت کا حصہ بنانے کے لئے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لئے سعودی حکمران مقامی شہریوں کو مختلف آسائشیں فراہم کر رہے ہیں تا کہ پڑھے لکھے نوجوان شہری بتدریج ملکی معاشی نظم و نسق کا حصہ بن کر اپنی صلاحیتیوں کو بروئے کار لائیں اور اپنے لئے بہتر ،کارآمدروزگار کماتے ہوئے ملکی معیشت کو مستحکم کرتے ہوئے غیر ملکی ورکرز پر انحصار ختم کریں۔ ملکی نوجوانوں کے لئے سعودی حکمرانوں کی یہ سوچ کلیتاً مثبت ہے اور یہ ان شہریوں کا حق ہے کہ وہ ملکی وسائل میں پہلے حقدار بنیں لیکن اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ شہریوں کو سرکاری اداروں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایسی سہولیات دی جاتیں کہ وہ اس طرف مائل ہوں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ 15 ، 20سال قبل کے منافع بخش قومی سطح کے اداروں میں سعودی شہریوں کا تناسب تقریباً صد فیصد ہو چکا ہے،جن میں بینک سر فہرست ہیں جہاں خال خال غیر ملکی شہری دیکھنے کو ملتے ہیں جبکہ دیگر اہم اداروں میں سکیکو(بجلی مہیا کرنے والا ادارہ)سعودی ٹیلی کوم،تیل کی پیداوار سے متعلق وزارت اور کئی بیشتر اداروں میں سعودائزیشن کا تناسب تقریباً 100 فیصد ہو چکا ہے تو دوسری طرف سعودی حکومت بتدریج پرائیویٹ اداروں کے لئے بھی سعودائزیشن کرنے کے حوالے سے شرائط سخت کررہی ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ اپنے بیروز گار نوجوانوں کو روزگار مہیا کر کے اپنے فرض منصبی سے سبکدوش ہو سکے۔
ان نوجوانوں کی بڑی تعداد برضا و رغبت یا طوعا ًو کرھاً اس سعودائزیشن پروگرام سے مستفید ہو رہی ہے اور معیشت کے اس سمندر میں اتر کراس کے اسرارو رموز سیکھ اور سمجھ رہی ہے۔ یہاں ایک اہم حقیقت واضح ہے کہ سعودی شہریوں کو بالعموم ایسی ملازمتیں دی جاتی ہیں جن کا براہ راست تعلق دفتری امور سے ہوتا ہے ،ایسی ملازمتوں کے حوالے سے سرکاری یانجی اداروں کی کوئی قید نہیں،ہر دو صورتوں میں مخصوص ملازمتیں سعودی شہریوں کے لئے مخصوص کی جا چکی ہیںاور کسی غیر ملکی کا ایسی جگہوں پر تقرر غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ سخت ترین جرمانے اور سزا کا موجب ہے کہ یہی سکہ رائج الوقت اور مقامی قانون ہے۔ غیر ملکی کارکنان چونکہ اپنی مجبوریوں کے باعث ان ممالک میں آتے ہیں اور قانوناً غیر ملکی قوانین کے پابند ہوتے ہیں لہذا وہ ایسی کسی تخصیص پر سوال اٹھانے کے اہل نہیں رہتے،انہیں ہر صورت ان قوانین کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔سعودی عرب اس وقت بھی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اوریہاںتیل کی برآمد کے بعددوسری بڑی انڈسٹری بڑے بڑے تعمیراتی منصوبہ جات ہیں جو وقتی طور پر شدیدمالی دباؤ کا شکار ہیں لیکن حکومت وقت ان کو جاری وساری رکھنے کے لئے متبادل انتظامات کر نے میں تقریباً کامیاب ہو چکی ہے اور بتدریج رکے ہوئے منصوبوں پر کام دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔
سعودی عرب تعمیراتی ورکرز کے لئے پچھلی کئی دہائیوں سے روزگار کی جگہ بنا ہوا ہے اور تیسری دنیا کے مزدور وں کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ پیٹرو ڈالر معیشت سے اپنا حصہ وصول کریں کہ پورے خلیج میں سعودی عرب میں اجرت بہترین ہے۔ اس پس منظر میں ایک وقت تک یہاں رہنے والے مزدور مختلف حوالوں سے کئی بے ضابطگیوں کے باوجود اپنا رزق کماتے رہے ہیں لیکن سعودی حکومت ان غیر قانونی تارکین کے لئے وقتاً فوقتاً ایسی ا سکیمیں متعارف کرواتی رہی ہے جس سے غیر قانونی تارکین اپنے کاغذات کو قانونی شکل دینے میں کامیاب ہوں اور کسی بھی طرح لاقانونیت کی سزا کا شکار نہ ہوں۔ آج کل بھی ایسی ہی ایک سکیم زیر عمل ہے ،جس کے تحت بے شمار غیر قانونی اور متاثرہ افراد نہ صرف بغیر کسی سزا کے وطن واپس جا سکتے ہیں بلکہ نئے ویزہ پر پھر سعودی عرب بھی آ سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں چند بڑی سعودی کمپنیاں اپنے اندرونی انتظامی امور کے باعث،مالیاتی بحران کا شکار بھی ہوئیں اور اپنے ملازمین کو بروقت ادائیگی کرنے میں بری طرح ناکام ہوئیں،نتیجتاً ان کمپنیوں کے ملازمین نے تنگ آکر شدید احتجاج کئے جو سعودی عرب میں غیر قانونی ہیںتاہم اس احتجاج کے بعد سعودی اعلیٰ حکومتی عمال نے فوری طور پر مذکورہ کمپنیوں کے ملازمین کے معاملات کو اپنے قابو میں کرتے ہوئے،ان متاثرہ ملازمین کی جائز شکایات کے لئے الگ سیل بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ سفارتخانوں سے بھی رابطہ قائم کیا تا کہ ان متاثرہ ملازمین کی داد رسی کی جائے۔ اس عمل کے بعد نہ صرف ان متاثرہ ملازمین کو ’’نقل کفالۃ‘‘ کی سہولت مہیا کی گئی بلکہ جو ملازمین وطن واپسی کے خواہشمند ہوئے،ان کے لئے قانونی طور طریقوں میں سہولت پیدا کرتے ہوئے،ان کی وطن واپسی کے انتظامات کئے گئے۔
یہاں دوسرا بڑا مسئلہ ان ملازمین کے بقایا جات کا اٹھا کہ مقامی قانون ملکی و غیر ملکی ورکرز کے حقوق متعین کرتا ہے اور بوقت ترک ملازمت یہ حقوق ملازمین کو ادا کئے جاتے ہیں لیکن اس اسکیم سے فائدہ اٹھا کر واپس جانے والے ملازمین کے بقایا جات کی ذمہ داری سعودی حکومت نے اپنے ذمہ لی جبکہ ان بقایا جات کی ترسیل کے لئے متعلقہ سفارتخانے کی مدد شامل ہو گی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ کمپنیوں نے ابھی تک برطرف یا احتجاجاً واپس جانے والے ملازمین کو ادائیگیاں شروع نہیں کی لیکن انہی کمپنیوں کے اکثر کارکنان (اہل اور کام کرنے والے) دوسری کمپنیوں میں نقل کفالہ کروا چکے ہیں۔ اس پس منظر میں پچھلے دنوں رؤف کلاسرہ اور عامر متین کا ٹی وی پروگرام سنا،جس میں انہوں نے ان پاکستانیوں کے حوالے سے’ ’چند‘‘ ان حقائق کا انکشاف کیاجو ان تک پہنچے ۔
دونوں صاحبان نہ صرف ثقہ ہیں بلکہ شعبہ صحافت میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں لیکن ان کی اس حیثیت کے باوجود اور اوپربیان کئے گئے محدود اور چیدہ چیدہ حقائق کے علاوہ دیگر اہم حقائق ایسے ہیں جو یقینا ان تک نہیں پہنچے۔ کلاسرہ صاحب نے زکوٹا جنوں کی مالی مراعات کے حوالے سے جو اعداد و شمار اپنے پروگرام میں رکھے،میں بالفرض ان حقائق سے اتفاق کر بھی لوں تب بھی یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ سفارتی عملہ پاکستانی محنت کشوں کی شکایات سننے میں کسی لیت و لعل سے کام لیتا ہے،یہ فقط سنی سنائی بات نہیں بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جہاں بھی دلیل کے ساتھ بات کی گئی اس کی مناسب شنوائی ہوئی اور دادرسی کے لئے حتی الامکان کاوشیں بروئے کار لائی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہمارے پاکستانی محنت کش بھائیوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر غلط معلومات فراہم کرتے ہیں جو بعد ازاں نہ صرف سفارتی عملے کی بلکہ ریاست پاکستان کی سبکی کا باعث بنتی ہیں۔
میرے ذاتی مشاہدے اور تجربے میں ہے کہ جن کمپنیوں کے حوالے سے متاثرہ پاکستانی واپس گئے ہیں،ان کی اکثریت ذہنی طور پر عدم یکسوئی کا شکار، دو کشتیوں کے سوار کی مانند رہی کہ ایک طرف انہوں نے اپنے نام وطن واپس جانے والی لسٹ میںدرج کروائے تو دوسری طرف بے شمار دوسری کمپنیوں میں ملازمت کی خاطر بھی اندراج کروائے رکھا۔ شو مئی قسمت اگر وطن واپسی کا عمل، عمل پذیر ہوا تو ساتھ ہی کسی ملازمت کا پروانہ بھی ہاتھ آ گیا،ایسے میں سفارتخانے کا کیا قصور؟سعودی حکومت آزاد ویزے کی سختی سے حوصلہ شکنی کر رہی ہے اور بارہا ان بھائیوں سے کہا جاتا ہے کہ آزاد ویزے پر سفر مت کریں مگر ’’کسی اپنے‘‘ کے دکھائے گئے خوابوں سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں،کم تنخواہ پر آجر کے ویزے پر آنے کے باوجود’’کسی اپنے‘‘ کے بہکاوے میں آ کرلالچ میں آجر سے ’’مفرور/ھروب‘‘ کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعد ازاں مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

شیئر: