Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے کا آنکھوں دیکھا احوال

کارکنان نے پاک ترک دوستی جھنڈے کے ماڈل کو توڑ دیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
نو مئی کی خوشگوار دوپہر میں گرمی اس وقت اچانک عود آئی جب سامنے ٹی وی سکرین پر عمران خان کی گرفتاری کی خبر چلنے لگی۔ میں اس وقت  صدر میں دوستوں کے ہمراہ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رینجرز کے ہاتھوں سابق وزیر اعظم عمران خان  کی گرفتاری کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آ گئیں اور وہاں موجود میرے مختلف الخیال دوستوں کی باہمی بحث و تکرار کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔
میں نے فوری اپنا بیگ کھولا کیمرے کی بیٹری، میموری کارڈ، موبائل بیٹری ٹائم اور اپنے بڑے رومال کی موجودگی کو چیک کیا۔ نمک نہ مل سکا البتہ پانی کی چھوٹی بوتل بیگ میں ڈالی اور تیزی سے بائیک پر وہاں سے روانہ ہو گیا کیوںکہ میں جانتا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔

جی ایچ کیو کے سامنے تحریک انصاف کے تین سو سے زائد کارکنان جمع تھے (فوٹو: اے ایف پی)

لیاقت باغ مری روڈ پہنچا تو ماحول پرسکون تھا۔ پولیس کی نفری بھی کہیں دکھائی نہ دی۔ تحریک انصاف و دیگر سیاسی جماعتوں کے احتجاج عام طور پر راولپنڈی میں مری روڈ  لیاقت باغ، کمیٹی چوک، شمس آباد یا پھر فیض آباد  کے مقام پر ہوا کرتے ہیں۔ میں نے اپنے چند صحافی اور بعض تحریک انصاف کے دوستوں کو متوقع احتجاج کا درست مقام جاننے کے لیے میسجیز کیے اور کمیٹی چوک کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں بھی امن دیکھ کر چاندنی چوک پہنچ کر بریک لگائی۔
کچھ دیر بعد تحریک انصاف کے ایک سابق ایم این اے کا فاروڈ میسج ملا جس میں کارکنوں کو احتجاج کے لیے  فوری لیاقت باغ  پہنچنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی سو میں نے بھی بائیک واپس گھما لیا شاہ ٹاہلیاں قبرستان کراس کرتے ہی آنسو گیس کی مخصوص بو ناک سے ٹکرائی  جو نتھنے جلانے لگی یہاں ٹریفک بھی جام تھی اور شہری گاڑیوں کے اندر بلبلا رہے تھے۔
میں زیلی گلی میں گھس گیا اور  پتلی گلیوں سے ہوتا ہوا آریہ محلہ  سے مری روڈ آ نکلا جہاں  میدان سج چکا تھا۔
تحریک انصاف کے سو کے قریب کارکن لیاقت باغ چوک میں ٹائر جلا کر احتجاج کر رہے تھے جس کی قیادت تحریک انصاف کے سابق ایم این اے صداقت عباسی کر رہے تھے جبکہ پولیس کی جانب سے موٹر سائیکل مارکیٹ کی جانب سے اکا دکا شیلینگ کی جا رہی تھی۔ کیونکہ ہوا مخالف سمت تھی اس لیے  شیلینگ کا دھواں واپس پولیس کی جانب جا رہا تھا جو کمیٹی چوک سے آنے والی ٹریفک جام میں پھنسی گاڑیوں میں موجود مرد و خواتین اور بچوں کو بری طرح متاثر کر رہا تھا۔
مظاہرین نے جب ٹریفک پولیس کی پکٹ کو گرا کر توڑنا شروع کیا تو پولیس نے شیلنگ میں اچانک اضافہ کیا اور مظاہرین کو ون فائیو تک پیچھے دھکیل دیا جہاں مظاہرین کی تعداد اب لگ بھگ چار سو سے تجاوز کر گئی تھی۔
پولیس کا ایک بڑا دستہ ون فائیو سے پریس کلب جانے والی سڑک پر محصور ہو چکا تھا جنھیں کارکنوں کے شدید پتھراؤ کا سامنا تھا۔ کارکنوں نے وہاں نصب پاک ترک دوستی جھنڈے کے ماڈل کو توڑنا شروع کیا اور اس کے چبوترے سے آرائشی پتھر بھی اکھاڑ پھینکے بعض میونسپل لائبریری میں جا گھسے اور وہاں توڑ پھوڑ کرنے لگے۔

مظاہرین نے جب ٹریفک پولیس کی پکٹ کو گرا کر توڑنا شروع کیا تو پولیس نے شیلنگ میں اچانک اضافہ کیا (فوٹو: اردو نیوز)

میں اس وقت آر ڈی اے کے سامنے میٹرو ٹریک کو اوپر جاتی سیڑھیوں پر چڑھا عکس بندی میں مصروف تھا۔ آنسو گیس کی وجہ سے سانس حلق میں اٹک رہی تھی ناک، چہرے اور آنکھوں کے نیچے جلد جھلس رہی تھی ایسے میں نمک کی شدید کمی محسوس ہو رہی تھے جسے ایسی حالت میں ہم تھوڑا کھا اور تھوڑا گیلا کر کے آنکھوں کے نیچے لگا کر کچھ تسکین پا لیا کرتے تھے۔
اس جگہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے بھتیجے سابق ایم این اے راشد شفیق کارکنوں کی قیادت کر رہے تھے۔ کارکن ’کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان‘، حقیقی آزادی اور فوج اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے تھے کہ کسی نے اچانک جی ایچ کیو کا نعرہ لگا دیا اور تمام کارکن با آواز بلند جی ایچ کیو کا نعرہ لگاتے لگاتے واپس مڑے اور مریڑ چوک کی جانب گامزن ہو گئے۔ میں کچھ دیر وہیں سیڑھیوں پر موجود رہا  کیونکہ میرے خیال میں جی ایچ کیو کے نعرے محض دیوانوں کی بڑھک تھی۔
پولیس اب ون فائیو سے ملحقہ سڑک سے باہر مری روڈ آ گئی تھی اور اکا دکا رہ جانے والے کارکنوں کو پکڑنے کی کوشش میں مصروف ہو گئی۔ کچھ اہلکار میٹرو ٹریک پر چڑھ گئے اور گردو نواح کی گلیوں میں شیلنگ کرنے لگے۔ مریڑ چوک جانے والے کارکن واپس نہ آئے تو میں نے بھی وہاں سے  جی ایچ کیو کی طرف جانے کی ٹھان لی کہ حالات کا جائزہ لے سکوں۔

صدر میٹرو سٹاپ  کے نیچے کئی شہریوں کی گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں (فوٹو: اردو نیوز)

صدر میٹرو سٹاپ  کے نیچے کئی شہریوں کی گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ ایک خالی پولیس بس کھڑی تھی جس کے شیشے توڑے جا چکے تھے۔ پولیس غائب تھی اور سامنے دور سے ہی جی ایچ کیو  کے باہر سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے موٹر سائکل صدر بازار کی ایک نسبتاً محفوظ گلی میں کھڑی کی اور پیدل ہی جی ایچ کیو کی جانب تیزی سے بھاگنے لگا۔
میں جس چبوترے پر کھڑا تصاویر بنا رہا تھا اس پر آدھ گھنٹے قبل تک ایک مسلح چاک و چوبند فوجی کا مجسمہ نصب تھا جسے مظاہرین نے اکھاڑ پھینکا تھا۔ میں نے دائیں جانب نظر گھمائی تو فلیش مین ہوٹل کے باہر وہ دوسرا مسلح فوجی کا مجسمہ بھی غائب تھا جس میں ایک ننھی بچی اسے پھول پیش کر رہی تھی اور وہ اس کے سر پر  شفقت سے ہاتھ رکھے ہوئے تھا۔ سامنے جی ایچ کیو کو تحریک انصاف کے تین سو سے زائد کارکنان جن میں درجنوں ڈنڈا بردار تھے گھیرے ہوئے نعرے لگا رہے تھے  اور بعض  باہر سے اندر کی جانب مختلف توڑی ہوئی اشیا اچھال رہے تھے۔
جی ایچ کیو کا گیٹ نمبر ایک چو پٹ کھلا تھا اور درجنوں مشتعل کارکن اندر گھس کر مختلف تخریبی کارروائیوں میں مصروف تھے جبکہ جی ایچ میں کوئی فوجی گارڈ دکھائی نہیں دیا۔

اچانک عقب سے میرے پیروں میں ایک  آنسو گیس کا شیل آن گرا (فوٹو: اردو نیوز)

جی ایچ کیو پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے حملے کی ابھی چند تصاویر اور ایک دو فوٹیج ہی بنائیں تھیں کہ اچانک عقب سے میرے پیروں میں ایک  آنسو گیس کا شیل آن گرا اور اس کے بعد تو گویا شیلوں کی برسات ہو گئی ایک دو شیل جی ایچ کیو کے اندر بھی گرے، شاید پولیس والے میٹرو سٹیشن کے اوپر سے بھی شیلنگ کر رہے تھے۔ سانس اٹکنے اور حالت غیر ہونے پر میں بھی تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ  پی سی ہوٹل کی جانب بھاگا۔ جہاں پہنچنے پر سامنے سے بھی اچانک پولیس کے مسلح دستے بکتر بند گاڑیوں سمیت نمودار ہوئے اور شیلنگ کرنے لگے۔ میں نے ان کی چند تصاویر بنائیں اور سرور پارک کی جانب سے پیدل ہی اپنے موٹر سائیکل تک پہنچ گیا۔
دفتر جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اٹھائیس برس کی میری صحافتی زندگی میں  یہ پہلی نہیں دوسری بار ہے کیونکہ  جی ایچ کیو کی اسی جگہ سے میں 2009 کو  بھی کوریج کرچکا تھا، لیکن اس وقت جی ایچ کیو پر کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے کارکنوں  نے عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دیا تھا، لیکن جی ایچ کیو پر حملہ کر کے  اب وہ اپنی ریڈ لائن بھی کراس کر چکے ہیں۔

شیئر: