پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد منگل کو ہونے والے احتجاج کے بعد بدھ کو جڑواں شہروں میں تعلیمی ادارے بند اور امتحانات تو ملتوی کر دیے گئے تھے۔
تاہم عمران خان کی پیشی کے باعث خدشہ تھا کہ اسلام آباد میں بدھ کا دن بھی ہنگامہ خیز ثابت ہوگا۔
صبح کے اوقات میں گھروں سے نکلنے والوں کو اس وقت خوش گوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں فیض آباد سری نگر ہائی وے سمیت تمام مرکزی شاہراہیں کھلی ہوئی ملیں۔
مزید پڑھیں
-
خیبرپختونخوا: ریڈیو پاکستان سمیت کہاں کہاں نقصان ہوا؟Node ID: 763551
-
کیا پاکستان بھر میں امن و امان فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے؟Node ID: 763576
گھروں سے نکلوانے والے افراد واٹس ایپ گروپس میں راستوں کی صورت حال کے بارے میں دریافت کرتے تو بیشتر جواب یہی آرہے تھے کہ دفاتر پہنچنے والے افراد بلا روک ٹوک دفتروں میں پہنچ چکے ہیں۔
تاہم انٹرنیٹ سروس بند ہونے کی وجہ سے آن لائن ٹیکسی سروس معطل تھی جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
عمران خان کی پیشی کے لیے جانے والی میڈیا ٹیمیں بھی باآسانی پولیس لائن ہیڈکوارٹر پہنچیں اور دن دو بجے تک سکون سے کوریج کرتی رہیں۔
تاہم انٹرنیٹ کی بندش کے اطلاعات کی دفاتر کو فراہمی متاثر رہی۔ صحافی حضرات اِدھر اُدھر سے وائی فائی کنکشن ڈھونڈتے نظر آئے۔
عدالت کا مقام اور عمران خان کی خفیہ منتقلی
رات گئے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹی فیکیشن کے ذریعے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس اور توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے پولیس لائنز ہیڈکوارٹرز کے گیسٹ ہاؤس کو عدالت کا دے دیا گیا۔
انتظامیہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی رات گئے ہی پولیس لائن سب جیل میں منتقل کر دیا تھا۔
تحریک انصاف کی قیادت کو اس فیصلے سے دھچکہ پہنچا جس کا اظہار انہوں نے اپنی گفتگو اور ٹویٹس میں بھی کیا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے اس اقدام کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ’اس سے عمران خان کے شفاف ٹرائل کی توقع نہیں ہے۔‘
بعدازاں انہوں نے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے پولیس لائنز میں عدالت کے قیام کے لیے جاری نوٹی فیکیشن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی۔

عمران خان کی عدالت میں پیش کے سلسلے میں قانونی ٹیم کے ارکان سب سے پہلے پولیس لائنز پہنچے، تاہم انہیں اندر جانے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔
القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت کا احوال
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کا آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا جبکہ نیب کی جانب سے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی۔
اس موقع پر سابق وزیراعظم نے عدالت کے سامنے بیان میں کہا کہ ’خدشہ ہے کہ میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو۔‘
نیب راولپنڈی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پولیس لائنز ہیڈکوارٹرز کے گیسٹ ہاؤس میں ایک روز کے لیے قائم کی گئی عدالت میں جج محمد بشیر کے رُوبرو پیش کیا۔
عمران خان گرے شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے ہوئے تھے تاہم وہ پہلے کی طرح ہشاش بشاش نظر آنے کے بجائے زیادہ تر وقت اپنے چہرے پر سنجیدگی سجائے کمرہ عدالت میں ایک کرسی پر براجمان رہے۔
القادر ٹرسٹ کیس میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی سپیشل پراسیکیوٹر رافع مقصود اور نیب کے پراسیکیوٹر سردار ذوالقرنین اور انویسٹی گیشن آفیسر میاں عمر ندیم بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

عمران خان کی نمائندگی خواجہ حارث، بیرسٹر علی گوہر اور ایڈووکیٹ علی بخاری کر رہے تھے۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کی جانب سے عمران خان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
عمران خان کے وکلا نے اپنے موکل سے مشاورت کے لیے وقت مانگا تو عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ وقفے کے دوران عمران خان نے کیس پر اپنے وکلا سے مشاورت کی۔
تقریباً 40 منٹ کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
خواجہ حارث نے نیب کی جانب سے ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے موکل کی گرفتاری غیر قانونی طور پر کی گئی۔‘
’عمران خان کی گرفتاری کے لیے مناسب طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ نیب نے نوٹس تو بھیجا لیکن شکایت کو کب ریفرنس میں تبدیل کیا؟
عمران خان کو کئی دیگر کیسز میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ میرا موکل شامل تفتیش ہو کر تحقیات میں تعاون کرے گا۔ جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔‘
دوران سماعت عمران خان نے احتساب عدالت میں بیان دیا کہ ’مجھے نیب دفتر پہنچا کر وارنٹ گرفتاری دکھائے گئے۔‘
اس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ’عمران خان کو گرفتاری کے وقت ہی وارنٹ دکھا دیے گئے تھے۔‘
پراسیکیوٹر نیب نے عمران خان کے وکلا کو دستاویزات فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ’یہ کرپشن کا کیس ہے جس کی تحقیقات برطانیہ کی این اے سی نے کی۔‘

’اس کیس کی رقم حکومت پاکستان کو منتقل ہونا تھی۔ واپس آنے والی رقم حکومت کے بجائے بحریہ ٹاؤن کو دے دی گئی۔‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’القادر ٹرسٹ کی زمین پر عمارت بنی ہوئی ہے۔ ٹرسٹ میں لوگ مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ٹرسٹ کا ایک ایک لیگل پرسن ہوتا ہے جو پبلک آفس ہولڈر نہیں ہوتا۔ عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں۔‘
اس دوران عمران خان نے بات کرنے کی اجازت چاہی تو جج محمد بشیر نے انہیں اجازت دے دی۔ عمران خان نے احتساب عدالت کے سامنے یبان میں کہا کہ ’میں 24 گھنٹے سے واش رُوم نہیں گیا۔‘
’میرے معالج ڈاکٹر فیصل کو بلایا جائے۔ چاہتا ہوں میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو۔ یہ انجکشن لگاتے ہیں، بندہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’میری گرفتاری سیاسی انتقام ہے۔ میرے وارنٹ گرفتاری کسی اور ادارے سے آئے ہیں۔ ایسا کون سا ریکارڈ ہے جو میں ان کو فراہم نہیں کر رہا۔‘
توشہ خانہ کیس
توشہ خانہ کیس کی سماعت بھی پولیس لائن ہیڈکوارٹرز ایچ الیون کے گیسٹ ہاؤس میں ہوئی جہاں عمران خان کو پیش کیا گیا۔ کمشنر آفس نے حفاظتی وجوہات کے باعث پولیس لائنز کو عدالت کا درجہ دے دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے آج عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

عدالت نے عمران خان پر توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کردی تاہم عمران خان نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔
عمران خان کے وکیل نے فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ موخر کرنے کی درخواست کی جسے عدالت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔ اس کے بعد عمران خان کے وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔
گذشتہ سماعت پر عدالت نے توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت اور دائرہ اختیار سے متعلق درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کی بھاگ دوڑ
اگرچہ عوام کی نظریں پولیس لائنز میں لگی عدالت پر تھیں لیکن تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی قانونی جنگ لڑنے میں مصروف رہی۔
تحریک انصاف کی لیگل ٹیم نے عمران خان کی گرفتاری، پولیس لائنز میں عدالت کی منتقلی سمیت دیگر مقدمات کے حوالے سے رات سے ہی تیاری شروع کر دی تھی۔
دوسری جانب بیرسٹر علی ظفر اور فواد چوہدری سپریم کورٹ پہنچے جہاں انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی اس فیصلے اور گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری جب سپریم کورٹ پہنچے تو پولیس ٹیم ان کی گرفتاری کے لیے وہاں پہنچ گئی۔

فواد چودھری کا کہنا تھا کہ ’مجھے گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے اجازت لینا ہوگی کیونکہ میں نے وہاں سے حفاظتی ضمانت لے رکھی ہے۔‘
احتجاج، جھڑپیں، مقدمات اور گرفتاریاں
منگل کے روز اگرچہ اسلام آباد میں دوپہر تک صورت حال معمول کے مطابق رہی اور پولیس کی جانب سے بند کیے گئے راستوں کے علاوہ ایک دو مقامات پر ہی معمولی احتجاج دیکھنے میں آیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے کال دینے کے باوجود کارکن عدالت کے باہر نہ پہنچے تاہم دوپہر کے بعد کارکن سری نگر ہائی وے پر ٹولیوں کی شکل میں پہنچ گئے اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ کارکنان نے اے سی پوٹھوہار کی گاڑی کے شیشے توڑ دیے۔
پولیس کی جانب سے الزام عاید کیا گیا کہ ’پی ٹی آئی ورکرز کی جانب سے درختوں کو آگ لگائی گئی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔‘
’مظاہرین کی جانب سے پیٹرول بم پھینکے جا رہے ہیں اور پتھراؤ کیا جا رہا ہے۔ مسافروں سے گذارش ہے کہ آمدورفت کے لیے محفوظ راستے کا انتخاب کریں۔‘
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
شیلنگ کے دوران ایک بار پھر وہی مناظر دیکھنے کو ملے کہ جب پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی جاتی تو وہ اپنے ہاتھوں میں موجود لاٹھیوں کو ہاکی کے طور پر استعمال کرتے اور شیل کو واپس پولیس کی جانب پھینک دیتے۔
