Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئلے کی کان میں پھنسے کان کنوں کو آٹھ دن بعد بھی نہ نکالا جا سکا

چیف انسپکٹر مائنز نے بتایا کہ ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئی ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں (فوٹو: روئٹرز)
بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلہ کان میں پیش آنے والے ایک حادثے کے نتیجے میں پھنسے ہوئے دو کانکنوں کو آٹھ روز بعد بھی نہیں نکالا جا سکا ہے۔ لواحقین کئی دنوں سے کان کے کنارے اپنے پیاروں کے زندہ یا مردہ نکالے جانے کے منتظر بیٹھے ہیں۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کا کہنا ہے کہ کان میں بارش کا پانی گھسنے کے سبب بننے والے کیچڑ کی صفائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اردونیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ جمعرات دکی سے تقریباً دس کلومیٹر دور کول مائنز ایریا میں ایک کوئلہ کان میں اس وقت حادثہ پیش آیا جب موسلا دھار بارش اور ژالہ باری کے بعد قریبی پہاڑ اور ندی کا پانی وہاں داخل ہوگیا۔

 

چیف انسپکٹر مائنز کے مطابق پانی داخل ہونے کے بعد کان کو شدید نقصان پہنچا اور وہاں کیچڑ بن گیا۔ کان کے اندر تین کان کام کر رہے تھے جن میں سے ایک نے بھاگ کر جان بچائی جبکہ دو کان کن تقریباً نو سو فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے۔
بھاگ کر جان بچانے والے کان کن محمد یونس نے اردو نیو زکو بتایا کہ ’کان کی تقریباً آٹھ سو سے نو فٹ کی گہرائی میں اندر ہم تین کان کن کام کر رہے تھے۔ میں نے کوئلہ بھر کر اوپر موجود ڈرائیور کو ٹرالی اوپر کھینچنے کا اشارہ کیا، لیکن اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میں دیکھنے کے لیے اوپر آیا تو دیکھا بارش ہو رہی ہے اور قریبی کان میں پانی داخل ہورہا ہے۔‘
یونس کے مطابق ’ٹرالی ڈرائیور کان میں پانی داخل ہونے سے روک رہا تھا۔ پھر ہم نے نیچے پھنسے ہوئے کانکنوں کواوپر آنے کا سگنل دیا۔ وہ اوپر کی طرف آرہے تھے لیکن اس دوران پانی زیادہ آنے کی وجہ سے کان کا ایک حصہ بیٹھ گیا اور ہمارے دونوں ساتھی نیچے پھنس گئے۔‘
چیف انسپکٹر مائنز نے بتایا کہ ’کوئٹہ، دکی، لورالائی اور دیگر علاقوں سے مائنزانسپکٹرز اور ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئی ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کان سے ہم بارش کا پانی نکال رہے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی مشنری نہیں جس کی مدد سے ہم کیچڑ کو بھی نکال سکیں۔‘
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق ’کان کے اندر آکسیجن کے لیے بنائے گئے متبادل راستے میں بھی پانی داخل ہوگیا ہے اس لیے وہ راستہ بھی بند ہوگیا ہے اور صرف ایک ہی طریقہ بچا ہے کہ ہم کان سے پانی ،کیچڑ اور ملبے کو نکال کر کانکنوں کی تلاش جاری رکھیں۔‘
ریسکیو آپریشن کی نگرانی کرنے والے مائنز انسپکٹر مقصود احمد کے مطابق ’کان میں زہریلی گیس نہیں لیکن آکسیجن کی کمی کا سامنا ہے۔ پانچ سو فٹ کے بعد نیچے پانی جمع ہے ہمیں پہلے ہوا کا بندوبست کرنا پڑا اس کے بعد ہم پانی نکال رہے ہیں ۔اس لیے کان کنوں کی تلاش اور نکالنے میں وقت لگ رہا ہے۔‘
پھنسے ہوئے کان کنوں کی شناخت قلعہ سیف اللہ کے رہائشی عبدالباقی اور شراف کے نام سے ہوئی ہے دونوں آپس میں رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے کوئلہ کان کے باہر اپنے پیاروں کی بخیریت واپسی کی امید لگائے بیٹھے لواحقین کی امیدیں بھی اب دم توڑ رہی ہیں۔
متاثرہ کان کنوں کے ایک قریبی رشتہ دار عبداللہ کاکڑ نے بتایا کہ ’آٹھ دن گزر گئے، لیکن ہمارے پیاروں کی کوئی خبر نہیں۔ انہیں نکالنے کے لیے کی جانے والی امدادی سرگرمیاں مؤثر نہیں زیادہ تر کام مقامی مزدور خود کر رہے ہیں حکومت کے پاس کوئی جدید مشنری بھی نہیں جس سے کوئلہ کان کی صفائی کی جاسکے۔‘

شیر محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کانکنوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے زندہ ہونے کی امید بھی ختم ہوگئی ہیں اب تو بس ان کی لاشیں مل جائیں تو بھی گھر والوں کو صبر آجائے گا۔ عبداللہ کاکڑ کے مطابق عبدالباقی اور شراف دونوں انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ غربت اور مجبوری کی وجہ سے کانکنی جیسا مشکل کام کررہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر مزدور آبائی علاقوں کو چلے گئے تھے، لیکن عبدالباقی اور شراف عید کی چھٹیوں میں بھی کام کر رہے تھے۔
دکی میں کانکنوں کے حقوق کی تنظیم کے رہنماء شیر محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کانکنوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں آئے روز حادثات کے نتیجے میں مزدوروں کی موت ہو رہی ہیں مگر حکومت اور کوئلہ کان مالکان کی جانب سے ان حادثات کی روک تھام اور حادثات کی صورت میں ریسکیو کے لیے مناسبت انتظامات اور وسائل موجود نہیں۔
محکمہ معدنیات کے مطابق ہرنائی، دکی، کوئٹہ اور کچھی سمیت بلوچستان کے سات اضلاع میں کوئلے کی 2800 سے زائد کانیں موجود ہیں جن میں تقریباً 70 ہزار کان کن کام کرتے ہیں۔ کان کنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا کے اضلاع سوات، دیر اور شانگلہ سے ہے جبکہ ایک بڑی تعداد افغان کان کنوں کی بھی ہے۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی کے مطابق بلوچستان میں رواں سال پانچ مہینوں میں اب تک 18 مختلف حادثات کے نتیجے میں 24 کان کنوں کی موت ہوچکی ہے۔

شیئر: